پاکستان ایران کشیدگی پر عالمی قیادتوں کی تشویش
بلوچستان کی ایک سول آبادی کے غریب گھرانے پر میزائل حملے کے بعد ایران کے سفارتی ادب آداب کے منافی لب و لہجے سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوا ہے کہ اس نے پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اسکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے کسی ایجنڈہ کے تحت اسکی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور میزائل مار کر ایک غریب خاندان کی خواتین کو شہید اور زخمی کیا۔ جب پاکستان کی جانب سے اسے باور کرایا گیا کہ اس نے اس جارحیت کے ذریعے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو چیلنج کیا ہے تو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے ایرانی وزیر خارجہ حسن امیر کی جانب سے کٹ حجتی پر مبنی یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ایران کے پاسداران انقلاب نیبلوچستان کے اندر موجود جیش العدل نامی عسکریت پسند تنظیم کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ موقف بھی اختیار کیا گیا کہ بلوچستان کے اس علاقے میں اسرائیلی دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں جو غزہ میں قتل و غارت کے ذمہ دار ہیں۔ اس طرح ایران نے دوطرفہ سفارتی مراسم اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود پرامن بقائے باہمی کے اصول کو روندتے ہوئے پاکستان کو جوابی کارروائی پر خود مجبور کیا چنانچہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں نے ایران کو ٹھوس جواب دینے کا فیصلہ کرکے اسے فی الفور عملی جامہ بھی پہنایا اور ایران کے شہر سروان کے قریب کالعدم بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ٹھکانوں پر یکے بعد دیگرے میزائل اور راکٹ حملے کئے جس میں ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 9 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ پاکستان نے اس جوابی حملے کے وقت بھی یہ احتیاط کی کہ کسی سویلین یا فوجی علاقے کو نقصان نہ پہنچے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد میں مبینہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے دھرنا دیئے بیٹھے افراد کی لیڈر مہ رنگ بلوچ نے تصدیق کی ہے کہ ایران کے شہر سروان میں پاکستان کے میزائل حملے میں ہلاک ہونیوالے افراد انہی مسنگ پرسنز میں شامل ہیں جن کی بازیابی کیلئے انہوں نے دھرنا دیا ہوا ہے۔ اس تصدیق کے بعد تو ملک کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھنے والی بلوچستان کی کالعدم تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ہر ٹھکانے کو تباہ کرنا پاکستان کا حق بنتا ہے‘ چاہے یہ ٹھکانے پاکستان کے اندر ہوں یا ایران اور افغانستان میں ہی کیوں نہ موجود ہوں۔ تاہم یو این چارٹر اور سفارتی ادب آداب کے تقاضوں کے تحت پاکستان ازخود کارروائی کے بجائے افغانستان اور ایران دونوں کو انکی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے آگاہ کرتا رہا ہے تاکہ وہ خود ان ٹھکانوں کے خلاف اپریشن کرکے اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت فراہم کریں۔ اسکے برعکس افغانستان کی جانب سے بھی پاکستان کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتا رہا اور اب ایران نے بلااشتعال اور پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر بلوچستان کی سول آبادی پر میزائل برسا دیئے جو پاکستان کیخلاف ننگی جارحیت کے ارتکاب کے ہی مترادف ہے۔
اگر پاکستان کی جانب سے ایران کے اس اقدام کا فوری جواب نہ دیا جاتا تو اس سے دفاعی طور پر پاکستان کے کمزور ہونے کا تاثر ابھرتا جس سے پاکستان کی سلامتی کے درپے اندرونی اور بیرونی عناصر کو بھی اپنی سازشیں بروئے کار لانے کا مزید موقع مل جاتا۔ ایران کی اس اشتعال انگیزی پر یقیناً علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجی ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے امریکہ اور دوسری الحادی قوتوں کی سرپرستی میں غزہ میں انسانی خون سے ہولی کھیلنے کے گزشتہ سوا تین ماہ سے جاری سلسلے نے پہلے ہی دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب یمن کے حوثیوں کے فلسطینیوں کے دفاع کیلئے منظرعام پر آنے کے بعد اسرائیل کے سرپرست امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں بمباری کا سلسلہ شروع کرکے اور حوثیوں کو دہشت گرد قرار دیکر خطے میں کشیدگی بڑھانے کیلئے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ابھی روس اور یوکرائن کی جنگ بھی نہیں تھم پائی نتیجتاً دنیا کی معیشتیں ڈوبتی نظر آرہی ہیں اور دنیا میں ادویات و خوراک اور اجناس کی قلت کے پیدا ہوتے بحران انسانی آبادیوں کو عملاً موت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
اس کشیدہ فضا اور جنگی ماحول میں اگر ایران کی پاکستان کے ساتھ پیدا کی گئی کشیدگی برقرار رہتی ہے اور جنگ کی نوبت آتی ہے تو یہ کرہ ارض کی تباہی پر منتج ہونے والی تیسری عالمی جنگ کا ہی نقارہ بجائے گی جو لامحالہ ایٹمی جنگ ہوگی۔ بھارت پہلے ہی افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کی پیٹھ ٹھونک کر پاکستان میں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کر چکا ہے جبکہ اب ایران کی جانب سے ہونیوالی اشتعال انگیزی میں بھی بھارت کا ہاتھ ہی کارفرما نظر آتا ہے جو ایران میں محفوظ ٹھکانے بنائے بیٹھے بلوچ دہشت گردوں کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس تناظر میں علاقائی اور عالمی امن کی داعی عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو بہرصورت ہوشمندی سے کام لینا ہے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ پاکستان نے ایران کی پیدا کردہ کشیدگی کے باوجود ابھی تک اسکے ساتھ تجارتی مراسم برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ عالمی قیادتیں بھی پاکستان ایران کشیدگی پر فکرمند نظر آتی ہیں۔ چین اور ترکی نے پاکستان اور ایران کے مابین کشیدگی ختم کرانے کیلئے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ برطانیہ نے دونوں ممالک کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کیلئے کہا ہے۔ امریکی ترجمان کے جاری کردہ بیان کے مطابق امریکہ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اسکی جانب سے اس طرح کی اشتعال انگیزی ناقابل قبول ہے اور اسکے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ روس نے بھی پاکستان اور ایران پر تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ صورتحال میں مزید کشیدگی خطے کے امن و استحکام اور سلامتی میں دلچسپی نہ رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے گی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی ایران کی پیدا کردہ کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ صورتحال کی پیش رفت سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح یورپی یونین نے بھی ایران اور پاکستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین حملوں سے خطہ میں عدم استحکام کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔
ایران کی پاکستان کے ساتھ پیدا کردہ کشیدگی یقیناً علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس لئے فہم و بصیرت کے ساتھ اس کشیدگی کے اسباب پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایران کے دل میں بھی امریکہ کی طرح یہ سودا سما گیا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کیلئے کسی بھی ملک پر حملہ آور ہو سکتا ہے تو پاکستان کو ایسی کسی جارحیت کیخلاف اپنے دفاع کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا مکمل حق حاصل ہے۔ اس معاملہ میں کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ عساکر پاکستان اور پوری قوم دفاع وطن کیلئے اپنی جانیں تک نچھاور کرنے کے جذبے سے سرشار ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کے سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھا کر اسکی سلامتی پر وار کرنے کی پوزیشن میں ہے تو عساکر پاکستان اس کا نشہ ہرن کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔