ہفتہ‘ 8 رجب المرجب 1445ھ ‘ 20 جنوری 2024ء
تحریک انصاف بلاول بھٹو کو کامیاب کرا کے نواز لیگ کو شکست دے۔ چودھری سرور۔
ق لیگ کو آخری سلیوٹ کر کے پیپلز پارٹی کے درِ برکت پر پہلا سلام کرنے والے چودھری صاحب آصف علی زرداری کی طرح بلاول کو وزیر اعظم آج کے بعد سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ کل تک کسی اور کووزیر اعظم دیکھنے کے متمنی تھے۔ تحریک انصاف چھوڑے اتنا ہی عرصہ ہوا ہے جتنا عمران خان کی حکومت کے خاتمے کو۔ دوچار دن کے ہیر پھیر کیساتھ۔ بڑا سوچ سمجھ کر ق لیگ جائن کی اور اس کے صوبائی صدراور چیف آرگنائزر قرار پائے مگر وہاں قرار نہ آیا تو" راہِ قرار" اختیار کر کے پی ٹی آئی کے دروازے کی پھر "کنڈی کھڑکائی". امید تھی سامنے سے کہا جائے گا کنڈی نہ کھڑکا، سدھا اندر آ۔ مگر اندر سے کنڈی تو کیا کھلنی تھی صاحب خانہ دروازہ کے ساتھ چپک کر کھڑے ہو گئے گویا گھٹ کے دروازہ بند کر لیا۔دیسی گھی میں دیسی مرغی تل کر کھانے سے ایسی ہی طاقت آتی ہے۔ کل چودھری صاحب نے کہا کہ انہوں نے چودھری شجاعت کو بتایا تھا کہ ن لیگ ہاتھ کر جائے گی۔ چودھری صاحب نے اس تنبیہہ کے ایک ماہ بعد آنکھ کھولی تو تیسرا چودھری ہاتھ کر گیا۔ دوسرا چودھری پرویز الٰہی اب تیسرا چودھری سرور۔ پیپلز پارٹی میں تازہ تازہ وارد ہونے والے سرور صاحب کہتے ہیں کہ سیاسی سفر کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا تھا۔ واہ کیا کہنے۔
کوئی اگر پہنچی وہاں پہ خاک- یا آنے والی جگہ- کہے تو ہم اتفاق نہیں کرتے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں۔
لوٹ ماضی کی طرف اے گردش ایام تو
چودھری صاحب کبھی تیسری جماعت میں پڑھا کرتے تھے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ٹوبوں اور کھالوں کا پانی پیا کرتے تھے۔ ن لیگ کا حصہ رہے گورنر بھی بنا دیئے گئے۔ اب اسی پارٹی کو ہرانے کی اور بلاول کو جتوانے کی دل میں حسرت، دماغ میں تمنا اور لبوں پر دعالئے ہوئے ہیں۔ نیک کے ولی نہیں بلکہ نیک نیت ہیں۔ ہو سکتا ہے یہی وقت قبولیت ہو۔
٭…٭…٭
الیکشن کے بعد مسلم لیگ نون سے مل کر حکومت بنا سکتے ہیں،خورشید شاہ۔
یہ شاہ صاحب کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے، پیش گوئی کی گئی ہے، دعا کی گئی ہے یا پھر دل کو تسلی دی گئی ہے؟ بلاول تو لٹھ لے کر لیگی لیڈروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف کو جس طرح کے خطابات اور القابات دے رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ انہوں نے دروازہ ہی نہیں درزیں جھیتیں اور روزن بھی بند کر دیے ہیں مگر سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔90ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک دوسرے سے مخالفت کی انت پر تھیں۔ پھر ایک پیج پرآئیں تو بے انت اپنائیت ہو گئی۔خورشید شاہ صاحب نے اپنے اسی بیان میں ایک نظر التفات پی ٹی آئی پر بھی ڈالی ہے کہ اس نے عدالت میں اپنا کیس درست طریقے سے نہیں لڑا۔ ایسا ہی لگتا ہے ورنہ بلے کا نشان ان سے نہ چھنتا۔اب ہاتھ سے گیا بلا تو گیا۔ کسی کو ملا نشان بینگن، کسی کو ملیں وکٹیں، کسی کو دہی بھلا، اللہ اللہ خیر سلا۔ ویسے ہر جگہ لڑنے میں پی ٹی آئی ماہر ہے۔ ہر پارٹی کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ حتی کہ آپس میں بھی لڑائیاں جاری ہیں۔ہر سیٹ پر لڑائی ہورہی ہے۔ شیر افضل مروت حامد خان اور شعیب شاہین کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ موخرالذکر دونوں ترشی، ٹیڑھی اور ٹیری آ نکھوں سے ان کی طرف صرف دیکھتے ہیں کہ مروت خان چڑ جاتے ہیں۔ سیاست میں سب چلتا ہے اور سیاست میں ایک لیول بھی ہوتا ہے۔ حامد ناصر چٹھہ کبھی آتش جوان تھے۔اب بزرگ سیاستدانوں میں شامل ہیں۔ ان پر اشتہاری کو پناہ دینے کا مقدمہ تھاجس میں ضمانت ہو گئی۔ فخر کرتے ہیں کہ چلیں مجھ پر اشتہاری کو پناہ دینے کا مقدمہ تھا۔ سیاست دانوں پر بھینس چوری،شامیانے اٹھا کر گھر لے جانے جیسے مقدمات بنتے تھے۔رحمت شاہ آفریدی ہوا کرتے تھے۔ ان کو 22 کلو ہیروئن برآمدگی میں سزائے موت سنائی گئی جو بعد میں عمر قید میں اور پھر معافی میں تبدیل ہو گئی۔ وہ ہمیشہ شکوہ کناں رہے کہ مجھ پر میرے لیول کے مطابق منشیات نہیں ڈالی گئیں۔ اگر مجھ پر ٹرک یا جہاز ڈالا جاتا تو مجھے گلا شکوہ نہ ہوتا۔ اپنا اپنا لیول ہے۔
٭…٭…٭
انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ جنوبی افریقہ میں شروع ہو گیا۔
ہر دو سال بعد ہونے والے اس کپ میں 16 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔پاکستان نے پہلا میچ افغانستان کے ساتھ کھیلا۔ ہر قسم کے فارمیٹ میں افغان ٹیم پاکستان کے مقابلے میں کرکٹ میچ نہیں جنگ سمجھ کر اترتی ہے جیسے پاکستان بھارت ٹیمیں برسر پیکار ہوا کرتی ہیں۔ پاکستان بھارت کی تو سمجھ آتی ہے مگر افغانستان ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں۔۔۔ انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ٹینس بال سے ریڈ اور وائٹ اصل والی بال تک پہنچایا مگر یہ بھارتی نواز ہو گئے۔ادھر جنوبی افریقہ میں جس روز 19 سال سے کم عمر کے کھلاڑیوں کی ٹیموں کے مابین مقابلے کا آغاز ہوا اسی روز نیوزی لینڈ میں قومی ٹیم چوتھا ٹی ٹونٹی میچ کھیل رہی تھی۔ تین میچ مسلسل ہار گئی دو میچ باقی بچے جو پاکستانی ٹیم اپنی مہارت اور کارکردگی کے بل بوتے سے زیادہ دعاؤں کے زور پر جیتنا چاہتی ہے۔
ابھی پتہ چلا ہے کہ چوتھا میچ بھی گیا، 159پر پوری ٹیم بک باقی رہ گیا ایک۔آسٹریلیا میں جو سلسلہ شروع ہوا وہ نیوزی لینڈ میں جاری رہا۔ وہی جہد وہی تسلسل وہی استقلال وہی عزم وہی ارادہ بلکہ پہلے سے بھی کچھ زیادہ۔ مجال ہے تین میچوں میں کیویز کو شکست کے قریب بھی لگنے اور پھٹکنے دیا ہو بلکہ پھڑکنے اور پھڑپھڑانے کی بھی مہلت نہیں دی۔ اگر ایسے ہی ہارنا ہے تو قومی ٹیم کو بدنامی سر لینے کی کیا ضرورت ہے پاکستان کی خواتین کی ٹیم ایسی کارکردگی دکھا سکتی ہے بلکہ بلائنڈز کی ٹیم چلی جائے تو کیویز کا ایک کھلاڑی 16 سے زیادہ کتنے چھکے "چھڑا"لے گا؟ نابیناؤں کی ٹیم کا تیار ہونا ذرا مشکل ہے کیوں نہ انڈر 19 کے 11 کے اوپر جو سات آٹھ کھلاڑی ہیں وہ نیوزی لینڈ بھیج دیئے جائیں جو 11 قومی ٹیم کے کھلاڑی گل کھلا رہے ہیں یہ چھ سات اس سے زیادہ بہتر کھلا سکیں گے۔
٭…٭…٭
دلہا شادی کے پہلے ہی دن دلہن کو لے کر تھانے پہنچ گیا
دْلہا صاحب شادی کے پہلے دن کی رات شروع ہونے سے بھی قبل نئی نویلی دلہن کو لے کر تھانے جا پہنچے۔ ایسا بھی دلہن نے کیا جرم کر دیا؟ کیا دلہے کے کان پر کاٹ لیا، کیا کر دیا؟ خبر کی ہیڈ لائن پڑھتے ہی کئی واقعات فلم کی طرح آنکھوں سے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ ایسے گھوم جاتے ہیں جیسے مداری کا بچہ جمورا مداری کی ہدایت پر گھوم جاتا ہے۔ کیوں گھوم جاتا ہے؟ اس لیے کہ بے ہدایت نہیں ہوتا۔ کبیر والا میں ایک شادی پر شگن کے پیسے کم دینے پر دلہن کے گھر والوں نے دلہے کی پٹائی کر دی جس کیبعد جسم کی کئی دن ٹکوریں کرتا رہا۔ ہر ٹکور کے ساتھ ہائے ماں کے بجائے ہائے دلہن وائے ووہٹی کہتا پایا گیا۔ کراچی میں بارات شادی ہال میں بیٹھی تھی دْلہا سوٹڈ بوٹڈ سرخ ٹائی لگائے اٹنشن بیٹھاچھالیہ چبارہا تھا۔ اچانک اس پر جوتا باری ہونے لگی۔ پتہ چلا کنوارے میاں تیسری شادی کر رہے تھے۔ یہ ٹیبل کی چادر اوڑھ کر بھاگ لئے۔ باقی باراتیوں کو شادی ہال کا دروازہ بند کر کے کٹاپا چڑھایا گیا۔ان کی پان کی پیکیں وہیں خطا ہوگئیں۔ اسلام آباد میں ایک دلہے نے دوسری شادی کی اور پہلی بیوی کا عروسی جوڑا نئی دلہن کو پہنوا دیا۔ مطلقہ کو پتہ چلا تو اس کی رپورٹ پر جوڑے کو پولیس شادی ہال سے چوری کے الزام میں تھانے گئی۔ فیصل آباد کے ایک گائوں میں بارات دلہے کے بغیر پہنچ گئی مقررہ روز دلہا صاحب اپنے ہی گھر نہ پہنچ پائے، آگے کیا جانا تھا۔ ٹرک ڈرائیور تھے کراچی سے آ رہے تھے راستے جام ہو گئے تو کلی طور پر دو جبکہ اپنی بارات سے ا یک دن لیٹ ہوئے۔جس دلہے کا اب ذکر ہوا اسے پتہ چلا کہ مظفر گڑھ میں تھانے کی نئی عمارت کسی محل کی طرح خوبصورت بنائی گئی ہے تو دلہن کو لے کر دلہا میاں فوٹو شوٹ کے لئے تھانے پہنچ گئے۔ پولیس کے تعاون پر دلہا خوشی سے نہال اور پْرجمال ہوئے جا رہا تھا۔ اس نے عملے کو چھوہارے کھلائے، بتاشے چبوائے اور پھر گھر کو آئے۔