ایران اور دفاع ِپاکستان
ایران کی جانب سے پاکستان پر کی جانے والی دراندازی کے بعد پاکستان کی فوج پر ایک دبائو موجود تھا کہ پاکستان نے ایران کے اس حملے کو روکا کیوں نہیں اور جوابی حملہ کیوں نہیں کیا تو پاکستان نے صرف دو دن بعد ہی ایران کی جانب سے حملے کے بعداپریشن ’’مرگ برسرمچار‘‘ کے ذریعے ایران میں موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنا کر نہ صرف جواب دے دیا ہے بلکہ ایران کو بھی بتا دیا ہے کہ ایران پاکستان کو ترنوالہ نہ سمجھے اور نہ ہی وہ یہ خیال کرے کہ وہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرے اور پاکستان خاموشی سے بیٹھ جائے۔
پاکستان اور ایران کے ایک دوسرے پر ہونے والے ان اٹیک میں یہ فرق موجود ہے کہ پاکستان نے ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں 9 کے قریب پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افراد مارے گئے ہیں جس کا ایران بھی اقرار کر رہا ہے کہ وہ افراد ایرانی نیشنل نہیں تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے نہ کوئی اشتعال انگیزی کی ہے اور نہ ہی جوابی وار کر کے حساب برابر کیا ہے بلکہ پاکستان کے دشمنوں کا صفایا کیا ہے۔
دوسری جانب اگر ہم ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی کو دیکھیں تو یہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر ایک گھنائونا وار ہے۔ اس خلاف ورزی کے نتیجے میں دو معصوم بچے شہید جبکہ تین بچیاں زخمی ہوگئی ہیں۔ جو ایران کے اس دعوی کی تردید ہے کہ یہ حملہ کسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف کیا گیا ہے، کیوں کہ اس حملے کے بعد ایران نے پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ یہ حملہ دہشت گردوں کیخلاف کیا گیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایران نے معصوم افراد کو نشانہ بنایا۔اگر ہم اس حملے کا جائزہ لیں تو اس حملے کی ساری ذمہ داری ایرانی حکومت ، آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلی جنس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے متعدد چینلز ہونے کے باجود بین الاقوامی قوانین کے برعکس کارروائی عمل میں لائی گئی جو کہ صریحاً پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہے۔پاکستان میںاگر دہشت گرد موجود تھے تو اس کے متعلق پاکستان کو آگاہ کیا جا سکتا تھا یا ان کیخلاف مشترکہ اپریشن تجویز کیا جا سکتا تھا لیکن ایران نے پاکستان پر براہ راست حملہ کر کے یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ خطے میں کسی کو بھی دھمکا سکتا ہے لیکن وہ یہ بھول گیا کہ یہ حملہ عراق، شام یا لبنان میںموجود شدت پسندوں پر نہیں بلکہ پاکستان پر کیا گیا ہے اور پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اس لئے پاکستان کو عراق ، شام سمجھنے کی بھول مت کرنا۔
ایران نے اپنی خفت مٹانے کیلئے اس واقعے کا جواز پیدا کرنے کے لیے جیش العدل نامی تنظیم سے ایک جعلی پریس ریلیز بھی جاری کروائی گئی۔ جیش العدل جسے آئی آرجی سی خود چلا رہی ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کے کسی طرح اِس مسئلے سے جان چھڑائی جائے اِسی لئے جیش العدل سے دوبارہ جھوٹا بیان دلوایا گیا کے یہ راکٹس غلطی سے بارڈر کے پار چلے گئے جبکہ اصل میں نشانہ سیستان، ایران کے اندر ہی واقع جیش العدل کے اپنے کیمپ تھے۔یعنی ایک دہشت گرد تنظیم خود کہہ رہی ہے کہ نشانہ وہ تھے لیکن ایران سے غلطی ہوئی ہے جو کہ ان کی دشمن بھی ہے اور وہ راکٹ غلطی سے پاکستان چلے گئے ہیں۔ کبھی دنیا میں ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی تنظیم اپنے ٹھکانوں کے متعلق دشمن کو خود ہی آگاہ کرے اور بتائے کہ اس کے دشمن نے غلطی سے کسی اور کو نشانہ بنا دیا ہے اصل میں نشانہ وہ تھے یعنی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کے ایک دہشت گرد تنظیم خود آئی آر جی سی کی طرف سے فائر کئے جانے والے راکٹس غلطی سے بارڈر کراس کرنے کی وضاحتیں دے رہی ہے۔ اِس سے صاف پتہ چلتا ہے کے یہ جیش العدل سے منسوب اکائونٹس آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلی جنس خود چلا رہی ہے تاکہ اس واقعہ سے دنیا کو گمراہ کیا جا سکے۔
حقیقت تو یہ ہے کے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے کیمپس ایران میں موجود ہیں، کلبھوشن یادیو بھی ایران سے آپریٹ کرتا رہا ہے اور اس کے پاس سے ایرانی پاسپورٹ برآمد ہوا اور پاکستان نے کلبھوشن کے معاملے پر بھی ایران کو برادر اسلامی ملک سمجھتے ہوئے مورد الزام نہ ٹھہرایا۔ اس سے پہلے بھی دراندازی اور دہشت گردی کے واقعات ایران کی سرزمین پر رونما ہو رہے ہیں۔
جنوری 2023 میں ضلع پنجگور میں ایرانی سرحد کے باہر ایران کی جانب سے دہشت گردانہ سرگرمی کے دوران چار سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے اور جبکہ اپریل 2023 میں ایران کی طرف سے دہشت گردوں نے کیچ میں پاکستان فورسز پر حملہ کیا۔ان حملوں کے باوجود پاکستان کی جانب سے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا گیا لیکن اس بار ایران نے حملہ کر کے نہ صرف معصوم لوگوںکو شہید کیا بلکہ اس کا پروپیگنڈہ بھی کیا اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں جن پر حملہ کیا گیا یعنی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی اور حقیقت اس کے برعکس ہے کیوں کہ پاکستان نے ایران میں جن افراد کونشانہ بنایا ان کے متعلق ایران خود تسلیم کر رہا ہے کہ وہ ایرانی شہری نہیں ہیں ، پھر وہ کس ملک کے شہری ہیں اور ایران میںکیا کر رہے تھے یہ بہت بڑے سوالیہ نشان ہیںجن کا جواب ایران کے پاس نہیں ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایران کے سیکورٹی ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایرانی حکومت کو سفارتی سطح پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔
دوسری جانب اس کارروائی کے دوران مخصوص سیاسی عناصر نے بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا انتہائی گھنائونا استعمال کیا اورافواج پاکستان کو بد نام کرنے کی مذموم سعی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اس سوشل میڈیا مہم میں ہندوستانی اکائونٹس نے بھی بھر پور حصہ لیا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں پاکستان کی مخصوص سیاسی ٹولے کی معاونت کی۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول کو ترجیح دیتا ہے لیکن اپنی ملکی سلامتی کے تقاضوں سے قطعاً غافل نہیں ہے اور ایران کی اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اسی حق کیلئے پاکستان نے ایران میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر بتا دیا ہے کہ اگلی بار اگر ایسا ہوا تو ردعمل اس سے زیادہ سنگین ہو سکتا ہے۔