لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
؎کئی زمانے بیت گئے۔ کئی عہد آئے اورختم ہوگئے۔ نصف صدی بھی تمام ہوئی اس جدوجہد میں کہ پاکستان پرحق حکمرانی پاکستانی عوام کا ہو۔ جمہوری عمل شفاف انداز میں ایک تسلسل کے ساتھ چلتا رہے۔ ہر پانچ سال بعد عوام کسی منصفانہ انداز میں اپنے نمائندے چنتے رہیں اور پرامن طور پر اقتدار منتقل ہوتا رہے۔ ملک میں مارشل لائوں کی بجائے آزاد الیکشن کمشن اورآزاد عدالتیں ہوں۔ ہر کامیاب ریاست کی طرح ملک میں ایک آئین ہو۔ تحریر وتقریر کی آزادی، مفت تعلیم، چادر اور چار دیواری کے تخفظ، ہسپتالوں میں مفت دوائیوں، عدالتوں میں مبنی بر انصاف فیصلوں، دیانتدار اور عوام کی خادم بیوروکریسی اور ہر ادارے کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کی ضمانت ہو۔ لوگوں کی اس خواہش کے پورے ہونے کانام’’آئین‘‘ ہوتا ہے۔ حکومت اورلوگوں کے درمیان ہونے والا ایک ’’سماجی معاہدہ‘‘۔ یہ معاہدہ ایسا ضمانت نامہ ہوتا ہے جس پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنے یانہ کرنے کی شکل میں جزا وسزا کا ایسا ایک نظام ہوتا ہے جو ریاست کے قوانین کو آئین کی روح کے مطابق ڈھالتا ہے اورجزا و سزا کے نظام کی تشریح کرکے معاشرے کو’’فساد فی الارض‘‘ سے بچانے کے خدائی احکامات کی تعمیل کرتا ہے۔ اس نظام میں جسے عرف عام میں ’’جمہوری نظام‘‘ کہاجاتا ہے، جس میں ہر شخص ریاستی کاموں میں بالواسطہ یابلاواسطہ حصہ دارہوتا ہے۔ لوگ اپنا راہنما خود چنتے ہیں اورپھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔پاکستانی قوم نے جو پہلا راہنما ’’ایک فرد، ایک ووٹ‘‘ کی بنیادپر منتخب کیا وہ شیخ مجیب الرحمان تھا۔ میں یہاں متحدہ پاکستان یعنی اصل پاکستان کی بات کررہا ہوں نہ کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی۔ ایک متحدہ ملک میں شیخ مجیب الرحمان کی ’’عوامی لیگ‘‘ جیت گئی اورباقی سب ہار گئے۔اوریوں 47ء کے بعد 1970ء میں کہیں جاکر ہمیں پاکستان کے عوام کو ’’ایک فردایک ووٹ‘‘ کی بنیادپر منتخب راہنما مل ہی گیا اور یوں ایک طویل سفر کے بعد وہ منزل آگئی جب کم از کم پہل امرحلہ طے ہوا۔ انتخابات کے بعد ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کااجلاس بھی بلالیا گیا۔ مگر افسوس کہ اسے غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ اس سے آگے کی کہانی بڑی خونچکاں اوردلخراش ہے جسے سن کر چھم چھم آنسو برستے ہیں۔ اس داستان میں کہیں گولیوں سے لوگوں کو بھونا جارہا ہے اورکہیں پاکستانی عورتوں کی عصمت دری ہورہی ہے۔ کہیں ’’مکتی باہنی‘‘ کی مخبریاں ہیں اورکہیں لوگ جانیں بچانے کے لئے پنجابی طرز کی شلواریں اپنے گھر کی چھت پر سکھارہے ہیں کہ شائد بچوں کی جان بچ جائے۔ اندراگاندھی دوقومی نظریئے کو سمندرمیں غرق کرنے کا دعوی کررہی ہے اور کہیں ہتھیار پھینکنے کی تقریب منعقد ہورہی ہے۔ یہ یونانی المیہ ڈرامے کی طرز کی وارداتیں ہم نے دیکھیں اور سنیں مگر 16دسمبر1971ء کوکیونکہ مغربی پاکستان کا میڈیا مکمل طور پر اس وقت صدر پاکستان جنرل یحییٰ خاں کے ساتھ تھا اورہمیں ’’محبت کا زمزم بہہ رہا ہے‘‘ کے نام کی لوریاں دے کر سیاسی طور پر سلایا جارہا تھا۔ اورہم واقعی سو بھی گئے۔ جاگے اس وقت جب غیر ملکی میڈیا نے ہمیں ٹھڈے مار کر اٹھایا اورخبردی کہ بے خبرو تم اپنے ووٹ کی حفاظت نہ کرسکے اور قانون قدرت نے تمہارے ملک کی حفاظت کا ذمہ واپس لے لیا۔ اب تمہارا ملک ووٹ کی پامالی کے سبب دوحصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ مجھے یاد ہے لندن میں عبداللہ نام کا ایک پاکستانی شخص کسی فیکٹری میں بھارتی اور بنگالی لوگوں کے ساتھ کام کرتا تھا۔ ایئر مارشل اصغر خاں بتایا کرتے تھے کہ جب اسے بھارتیوں اوربنگالیوں نے بتایا کہ ایک ذلت آمیز دستاویز پر جنرل نیازی کے دستخط کے بعد تمہارا ملک اب دوحصوں میں تقسیم ہوگیا ہے تو اسے یقین ہی نہ آیا مگرجب یقین آیا تو وہ دنیا سے ہی اٹھ گیا۔ آج کی نسل کو اس کرب کا اندازہ نہیں ہے جس سے ہماری نسل گذری۔ آپس میں ہی ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے، مگرکب تک؟ آخرکار ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل یحییٰ خاں اور اسکے ٹولے نے مجبور ہو کر اقتدار منتقل کیا۔ اور ذوالفقار علی بھٹو باقیماندہ پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ ان کا دور انسانی حقوق کے حوالے سے اگرچہ مثالی نہیں تھا مگر وہ ایک بڑی قیمتی چیز ہمیں دے گئے اوروہ تھا 1973ء کا آئین۔ ایک مقدس دستاویز اوربکھری ہوئی شکست خوردہ قوم کے ساتھ ایک متفقہ ’’سماجی معاہدہ‘‘ مگر بدقسمتی یہاں بھی ملک کی قومی اسمبلی کے دروازے پر کھڑی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ قائد حزب اختلاف مفتی محمود کو ’’ڈنڈا ڈولی‘‘ کرکے معہ انکے ساتھیوں کے ہال سے باہر پھینکوا دیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے ہی ایک اور ممبر قومی اسمبلی احمد رضا قصوری جو ذوالفقار علی بھٹو کے ڈھاکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرنے کے باوجو ڈھاکہ پہنچ گئے تھے انہیں مارنے کی کوشش میں ان کے والد کو قتل کردیا گیا۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خواہ) اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعتہ علماء اسلام کی مخلوط مگر منتخب حکومتیں توڑ دی گئیں۔ ادھر اپریل میں 1973ء کاآئین منظورہوا، ادھر ملک بھر میں دفعہ 144نافذ کردی گئی اور یوں قوم کا یہ متفقہ آئین بھی اپنے ہی خالق کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ اب تیسرا مارشل لاء اسلامی لبادہ اوڑھ کرآگیا۔73ء کے آئین کے خالق کو نواب محمد احمد خاں قتل کیس میں موقع پر موجود نہ ہونے کے باوجود عدلیہ نے مارشل لاء کاساتھ دیا اور ذوالفقارعلی بھٹو کو تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔ اگر حکم ہوا کہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو، محمد خاں جونیجو اور بے نظیر بھٹو کی توڑی گئی اسمبلیاں بحال نہیں کرنی تو تعمیل ہوئی۔ اگر پیغام ملا کہ وزیر اعظم نوازشریف کی توڑی گئی اسمبلی بحال کرنی ہے تو کردی گئی۔ یہاں اگر میں تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والے ظلم وستم کا ذکر کرنا شروع کردوں جو اس جماعت کے کارکنوں کے ساتھ روا رکھا گیا توکالم بے حدطویل ہوجائے گا۔ مگر یہ کھیل شائد اب ختم ہونے کو ہے۔ سب لوگ اور تمام متعلقین اسے نوشتہ دیوار سمجھ لیں کہ وہ دن اب دورنہیں جب ہمارے ملک میں حق حکمرانی ہماراہی ہوگا۔ اور ہم وہ دن ضروردیکھیں بلکہ اب لازم ہے کہ ہم ہی دیکھیں گے۔