ہماری یاد کیسے آگئی
سب سے بڑی خوشی دل کی خوشی ہوتی ہے۔دل کی تسکین اور روح کی شادابی صاحب نصیب کو ہی ملتی ہے۔جس بندے کو صحت اور سکون مل رہا ہو اسے اور زیادہ خواہشات پالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے۔ہم جس عہد میں جی رہے ہیں یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مقصد اور غرض سے جڑا ہوا ہے۔ ہم اپنی اپنی غرضوں کو لیے جیتے جا رہے ہیں۔اس مختصر لیکن طویل نظر آنے والے سفر میں طرح طرح کے لوگ ہمارے سامنے سے گزرتے ہیں۔ کچھ چہرے دائمی وارفتگی اور وابستگی کا سبب ہوتے ہیں۔ آپ انہیں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں انکے رویئے دل پہ ثبت ہو جاتے ہیں آپ ان سے وابستگی کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں، ان سے آپ کو کوئی غرض نہیں ہوتی بس دل کی خوشی اور اطمینان کے لیے ان سے ملنا اور انہیں دیکھنا آپ کا مقصد و مدعا ہوتا ہے۔
میں سمجھتی ہوں جو لوگ نیت کے خالص ہوتے ہیں بناوٹ اور تصنع سے پاک ہوتے ہیں انہیں کہیں نہ کہیں سکون واطمینان کے لیے سے کوئی نہ کوئی وابستگی مل جاتی ہے۔ پھر یہ لوگ سودوزیاں کی حدوں سے ماورا ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ خالص روحانی وابستگی حاصل یے تواس پہ خدا کا شکر ادا کریں اور اس نعمت کی قدر کریں۔
مجھے جب سے زندگی کی کچھ نہ کچھ سمجھ اور شعور آیا یے میں نے معاشرے کے جن افراد کو سب سے زیادہ مطلبی اور خود غرض پایا ہے وہ ہمارے نام نہاد سیاست دان ہیں جو جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو آج تک تباہ و برباد کر رہے ہیں۔چند دن پہلے میرے سامنے ہی میرے میاں کو فون آیا۔
بڑی رعب دار آواز میں ایک صاحب فرما رہے تھے خان صاحب ہم آپ کی طرف آرہے ہیں کوئی پچیس تیس آدمی ہوں گے ساتھ۔
آپ لاہور ہیں یا گاؤں؟۔
وہ معزز بندہ جس شائستگی سے بات کر رہا تھا مجھ سے رہا نہیں گیا فون بند کرتے ہی میں نے پوچھا ، عمران صاحب کون تھے یہ۔
میں یہاں کسی پارٹی اور کسی بھی فرد کا نام نہیں لوں گی۔
میرے خیال میں آپ میں سے ہر کسی کے ہاں ہمارے خیر خواہ، مستقبل کے ایم پی ایز اور ایم این ایز یوں ہی آ جا رہے ہوں گے۔ میں پچھلے دنوں گاؤں گئی تھی وہاں بھی کچھ ایسی ہی ہلچل تھی۔ ہاں مگر وہاں کوئی آدھی سڑک بن بھی چکی تھی جہاں سے لوگ اب آسانی سے گاڑیاں اور موٹر بائیک لے جا رہے تھے۔
ہماری یاد کیسے آگئی۔
یقینا اس یاد کے پیچھے اپنے خوابوں کا جہاں آباد کرنا ہے جو ہمارے ساتھ جھوٹے وعدوں کی بدولت تعمیر ہو گا، اور ہمارے ساتھ کیے ہوئے وعدوں میں سے کوئی وعدہ وفا نہیں ہو گا۔
دکھ کی کئی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ہر بار ہمارے ساتھ یہی ہوتا یے اور ہمیں عقل نہیں آتی۔ ہمارا کوئی کام انہوں نے آج تک نہیں کیا۔
ہمارے کئی مسائل ہیں
بچے ٹائم پہ سکول نہیں پہنچ پاتے ناشتہ تیار کرنے کے لیے گیس نہیں ہوتی۔بارش ہو جائے تو نکاسی آب کا مسئلہ تقریبا ہر چھوٹی بڑی جگہ عام نظر آنے لگتا یے۔ گلیاں ٹوٹی پھوٹی ہیں،
کوڑے کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں،
لائٹ نہ آنے سے کاروبار رک جاتے ہیں۔ مزدور کو اس کی دیہاڑی نہیں ملتی۔ فیکٹریاں بند ہو جاتی ہیں۔ سرکاری ہاسپیٹلز میں بغیر سفارش کے دوائی نہیں ملتی۔ہمارے جوان بچے بیروز گار ہیں۔ ان کا مستقبل کیا یے وہ کدھر جائیں؟اور نتیجتاً نوجوان میں کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔یہ مسائل ہر بندے کے مسائل ہیں
جن کا حل ہونا ہر بندے کا بنیادی حق ہے۔
میں سمجھتی ہوں ہم کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی محور و مرکز پہ گھومتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ہانکنے والے طاقت ور ہیں،
ہمارے ذہین اور دماغ جکڑے ہوئے ہیں ہم ہمیشہ ایک ہی راستے پہ چلتے رہتے ہیں، ایک جیسے مکروفریب میں لپٹے وعدوں کے فریب میں آتے رہتے ہیں۔ جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے، ہوش نہیں پکڑیں گے، کوئی ہمارا کچھ بھلا نہیں کر سکے گا۔ ہمیں خود اپنے لیے کوشش کرنا پڑے گی۔
آپ کی سمجھ میں جس جس پارٹی کا منشور آتا یے آپ اس کے حق میں ووٹ کریں پھر آخر تک اس کا پلہ نہ چھوڑیں، جب تک کہ وہ آپ کے علاقے کے مسائل حل نہ کر دے۔ آپ کو بنیادی سہولتیں دینے میں کامیاب نہ ہو اس کی جیب میں آنے والی تنخواہ آپ کے ووٹ کی بدولت ہے۔
میں یہاں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو بھی مبارک باد پیش کروں گی جنہوں نے کہا تھا ہم شاہدرہ کو گلبرگ بنائیں گے۔ دو دن پہلے شاہدرہ چوک سے گزرنے کے بعد یہی محسوس ہوا۔
شاہدرہ چوک کے ارگرد کیا گیا کام دیکھ کے دلی خوشی ہوئی۔
میرا بیٹا کہہ دیا تھا ماما ہاتھی بھی رکھا ہوا ہے۔
چھوٹے سے اس پارک میں بیٹھنے کے لیے کرسیاں بھی رکھی ہوئی تھیں، فوارے کا خوب صورت منظر دلکشی بڑھا رہا تھا۔کچھ نوجوان بہت پیارے انداز میں سلفییاں بنا رہے تھے۔ شام کا خوبصورت منظر آنکھوں میں جذب ہو رہا تھا۔
ایسے میں اپنے ہی چند اشعار یاد آگئے۔
ایک تیرے پیار کی میٹھی کسک
اور اس پہ کاسنی سی شام یے۔
میرے گھر میں چاند اترا ہے اگر
کیا یہ تیرے آنے کا پیغام ہے۔
چاک پہ صورت گری نہ ہو اگر
جسم کی مٹی تو مالِ خام ہے۔
کس قدر دعویٰ کہ بدلیں گے جہان
اور بس میں صبح ہے، نہ شام یے
٭…٭…٭