• news

معلومات تک رسائی لازم، چیف جسٹس: ریاستیں اظہار رائے سے نہیں روک سکتیں، جسٹس اطہر

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق بن چکا ہے اب یہ محض ہماری مرضی کی بات نہیں ہے۔ اسلام آباد میں اعلی عدلیہ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس میاں محمد علی مظہر کی کاوشوں سے لائیو عدالتی کارروائی ممکن ہوئی۔ صحافیوں کے ذریعے ہی عدالتی معلومات عوام تک پہنچتی ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آج کی نشست عدالت عالیہ اور عدالت عظمٰی کے صحافیوں کیلئے مقرر کی گئی۔ آپ ہی کے ذریعے عدالتی فیصلوں اور کارروائی کی معلومات عوام تک پہنچتی ہے، معلومات ایک بہت ہی موثر ہتھیار ہے، شہری کی حیثیت سے کسی بھی معلومات کا حصول آپ کا استحقاق ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج کی تقریب سے متعلق دو شقیں اہم ہیں، ایک شق19 جس میں صحافت کی آزادی کا ذکر ہے جبکہ دوسری شق19 اے جس میں معلومات فراہم کرنے کا بنیادی حق ہے۔ اب یہ ہماری مرضی نہیں ہے آپ کو کچھ دکھائیں یا کچھ نہ دکھائیں، دھوپ سے بہتر کوئی چیز زیادہ جراثیم کش نہیں، ہم بھی ایسی ہی روشنی پھیلائیں تو کسی اور دوائی کی ضرورت نہیں۔ یہی دھوپ اور روشنی دکھاتے چلیں تو معاشرہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک شہری سپریم کورٹ ملازمین کی معلومات کیلئے سپریم کورٹ آئے۔ رجسٹرار نے اس شہری کی معلومات فراہمی کو چیلنج کر رکھا تھا، سپریم کورٹ بھی آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تابع ہے۔ ہم نے آئین کے تحت وہ معلومات شہری کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے تمام فیصلے ویب سائٹ پر لگا دیئے جاتے ہیں، پہلے آپ سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کو معلومات کیوں چاہئیں؟ اب ادارے کو بتانا ہوگا کہ وہ معلومات آپ کو کیوں نہیں دینا چاہتا؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٗ نے کہا کہ جب شہری کو معلومات حاصل ہوں گی تب ہی احتساب کا عمل شروع ہوگا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے چیف جسٹس پاکستان بننے سے قبل چار سال فل کورٹ میٹنگ ہی نہیں ہوئی تھی اور اب سپریم کورٹ عدالتی کارروائی براہ راست دکھا رہا ہے۔ براہ راست عدالتی کارروائی کا معیار درست کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلی سہ ماہی رپورٹ تاریخ میں پہلی بار جاری کی اس رپورٹ کا مقصد معلومات فراہم کرنا ہے جو عدالتی اہم فیصلے کیے وہ ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ 4466 مقدمات کا اندراج ہوا اور 5305مقدمات نمٹائے گئے یعنی ہم نے اندراج سے زیادہ مقدمات نمٹائے۔ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقدمات نمٹائیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ہم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج، جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا ہے کہ جج کو کبھی کسی تنقید سے گھبرانا ہی نہیں چاہیے۔ وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آتی ہے۔کوئی جج سوشل میڈیا کا اثر لیتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اسلام آباد میں کورٹ رپورٹرز کی ورکشاپ سے خطاب میں جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدلیہ پر2قسم کی تنقید ہوتی ہے، ایک تنقید جب الزام لگایا جاتا ہے کوئی دانستہ فیصلے ہو رہے ہیں، ایک وہ تنقید ہوتی ہے جسے میں پسند نہیں کرتا اسے ریلیف کیوں ملا۔ تنقید والا بھی اگر اسی عدالت پر اعتماد کرے تو یہ عدلیہ کا امتحان ہے، تنقید ہر کوئی کرے لیکن عدلیہ پر اعتماد بھی کرے جب کہ سوشل میڈیا کا اثر ججز پر نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ توہین کے قوانین برطانیہ میں ججز کا دفاع کرنے کیلئے نہیں بنے، جج کو تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ تنقید کرنے والا بھی اسی عدالت پر اعتبارکرے یہ عدلیہ کا ٹیسٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہارِ رائے کو کنٹرول نہیں کر سکتیں، سچ کو دباتے دباتے یہاں تک پہنچ گئے۔ اگر عہد کی خلاف ورزی نہ ہوتی تو پاکستان 1971 ء میں دولخت نہ ہوتا، کیا ہم آج اصول پر کھڑے ہیں؟ ہر ایک کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی لیڈر کمزور ہوجائے تو اسے عدالت سزا دینے سے پہلے سزا دے دیتی ہے، ریاستی طور پر بھی کمزور سیاسی لیڈر کو سزا سے پہلے سزا دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب 18ویں ترمیم کا معاملہ اٹھا تو بہت سی قوتیں اس کے مخالف تھیں، مجھ سے ایک کورٹ رپورٹر نے پوچھا کہ سپریم کورٹ 18ویں ترمیم پر کیا کرے گی؟۔ میں نے کہا میری رائے ہے کہ سپریم کورٹ کوکسی آئینی ترمیم کو نہیں چھیڑنا چاہیے، میں نے کہا تھا کہ اٹھارویں ترمیم اگر کالعدم ہوگئی تو استعفی دیدوں گا، خبر لگی کہ اطہر من اللہ نے عدالت کو دھمکی دے دی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اظہار رائے کے اصولوں کے بلند رکھنے کیلئے کوڑے بھی کھائے، میں نے کورٹ رپورٹرز سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی آدھی تاریخ ڈکٹیٹرشپ میں گزری، ڈکٹیٹرشپ میں آزادی اظہار رائے ممکن نہیں۔ بڑے سے بڑے ملزم کیلئے بھی جرم ثابت ہونے تک معصوم ہونے کا تصور ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ٹرائل کے زمانے کے اخبارات دیکھیں، اس وقت بدقسمتی سے اخبارات میں وہ بے گناہی کا مفروضہ موجود نہیں تھا۔

ای پیپر-دی نیشن