• news

پاکستان اور ایران میں کشیدگی ختم کرنے پر خوش آئند اتفاق

پاکستان اور ایران کے مابین سفارتی روابط اور عالمی قیادتوں کی کوششوں کے نتیجہ میں ایران کی جانب سے کشیدگی کے خاتمہ کیلئے کرائی گئی یقین دہانی کے باعث دونوں ممالک کے مابین گزشتہ تین روز سے جاری تنائو کے خاتمہ کی راہ ہموار ہونے لگی ہے۔ وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کے بقول پاکستان ایران کے ساتھ باہمی اعتماد اور تعاون کی بنیاد پر تمام مسائل پر کام کرنے کیلئے آمادہ ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ وزیر خارجہ کا اپنے ہم منصب ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللیہان سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے اور دونوں وزراء خارجہ نے تمام مسائل باہمی تعاون کے ساتھ حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے سکیورٹی سے متعلق معاملات پر قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ دریں اثناء نگران وزیر خارجہ خلیل عباس جیلانی اور ترکیہ کے وزیر خارجہ خاقان فیدان کے مابین بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں پاکستان اور ایران کے درمیان جاری پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر خارجہ پاکستان نے اپنے ہم منصب وزیر خارجہ ترکیہ کو بتایا کہ اپریشن مرگ بر سرمچار کا مقصد ایران کے اندر دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنانا تھا۔ پاکستان کو کسی قسم کی کشیدگی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ 

ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق پاک ایران وزراء خارجہ کی فون پر مثبت بات چیت ہوئی ہے اور وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصب وزیر خارجہ ایران کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین دوستانہ سفارتی‘ تجارتی اور عوامی سطح کے روابط سات سے زائد دہائیوں پر محیط ہیں اور قیام پاکستان کے بعد اس خطے کے ممالک میں سے ایران نے ہی سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ یہ دونوں پڑوسی ممالک مسلم برادرہڈ کے جذبے سے بھی سرشار ہیں اور خطے کے امن و سلامتی کیلئے بھی پاکستان اور ایران ایک دوسرے کی معاونت سے مثالی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ امام خمینی کے انقلاب ایران کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھائوہوتا رہا مگر انکے دوطرفہ باہمی تعلقات میں کبھی کشیدگی کا عنصر پیدا نہیں ہوا تھا جبکہ دونوں ممالک کے عوام بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ 
جب 2012ء میں پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی بنیاد رکھی گئی تو بھارت نے پاکستان چین تعلقات کے علاوہ پاکستان ایران تعلقات میں بھی رخنہ ڈالنے کی سازش کی جس کے تحت سی پیک کے مقابل ایران کو بھارت نے چاہ بہار پورٹ کی تکمیل میں معاونت کی ترغیب دی۔ اس کا پس منظر یہی تھا کہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشی منصوبے تیار کرنے والی بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے بلوچستان سے ملحقہ ایرانی صوبے سیستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا جسے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاک ایران سرحد سے بلوچستان میں داخل کرنے کی سہولت مل رہی تھی۔ اس نیٹ ورک کو مزید پھیلانے کیلئے بھارت نے ایران کو چاہ بہار پورٹ کی تکمیل کا دانہ ڈالا جس کا مقصد ایران کو یہ چکمہ دینا بھی تھا کہ علاقائی اور عالمی منڈیوں کا سی پیک کے بجائے چاہ بہار پورٹ کی جانب رخ ہوگا تو ایران کی اقتصادی ترقی کے راستے بھی کھلیں گے۔ تاہم ایران بھارت کے اس جال میں نہ آیا اور اس نے سی پیک کو اپریشنل کرنے کیلئے بھی پاکستان کی معاونت کا عندیہ دیا۔ بھارت نے اسکے باوجود اپنی سازشیں ترک نہ کیں اور ایران کے صوبے سیستان میں، جہاں چاہ بہار پورٹ بھی قائم ہے‘ ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے بنا لئے۔ اس نیب ورک کا سرغنہ بھارتی جاسوس کلبھوشن ایران سے بلوچستان میں داخل ہوتے وقت گرفتار ہوا تو اس وقت ایران اور پاکستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہوئیں جن کا دونوں ممالک نے سفارتی سطح پر پیش رفت کرتے ہوئے فوری ازالہ کرلیا۔ 
اس بنیاد پر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ پاکستان اور ایران کے مابین کبھی ایسی کشیدگی بھی پیدا ہو سکتی ہے جو دونوں ممالک میں جنگ کی نوبت لانے پر منتج ہو سکتی ہو۔ اسی تناظر میں جب ایران کی جانب سے 17 جنوری کو بلوچستان کی ایک سول آبادی پر میزائل حملہ کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ ایران کے پاسداران انقلاب نے یہ حملہ بلوچستان کے اندر موجود جیش العدل نامی عسکریت پسند تنظیم کے ٹھکانے پر کیا ہے جو ایران میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے تو پاکستان کی جانب سے فوری جوابی کارروائی اس لئے بھی ضروری ہو گئی کہ پاکستان کے دفاعی طور پر مضبوط ہونے کا ٹھوس پیغام دیا جائے۔ پاکستان نے ایران کے شہر سروان کے جس علاقے پر یکے بعد دیگرے میزائل اور راکٹ برسائے وہاں فی الحقیقت بلوچستان کی دہشت گرد تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف نے اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ یہ تنظیمیں اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں بھی شامل ہیں جن کیخلاف کارروائی کیلئے پاکستان کی جانب سے ایران سے مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کیونکہ ان دہشت گرد تنظیموں کی ایران میں کارروائیوں سے دونوں ممالک کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہونے کا امکان بھی رہتا تھا۔
جب ایران نے پاکستان کو بتائے اور اعتماد میں لئے بغیر بلوچستان کی سول آبادی کے ایک گھر پر میزائل حملہ کیا تو پاکستان کیلئے بھی جوابی کارروائی کا جواز نکل آیا جس سے ایران اور پاکستان کے دوسرے اندرونی و بیرونی بدخواہوں کو یہ ٹھوس پیغام بھی مل گیا کہ پاکستان کو کسی بھی حوالے سے کمزور نہ سمجھا جائے۔ عساکر پاکستان اپنی ارض وطن کی حفاظت کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ یقیناً پاکستان کے اس مسکت جواب پر ہی متعلقین کے ہوش ٹھکانے آئے جبکہ گزشتہ روز نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی پاکستان اور ایران کے مابین پیدا ہونیوالی کشیدگی کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری کی بلااشتعال اور غیرقانونی خلاف ورزی کے جواب میں افواج پاکستان کے پیشہ ورانہ متعین اور متناسب ردعمل کو سراہا گیا۔ اجلاس میں اپریشن مرگ بر سرمچار کا بھی جائزہ لیا گیا جسے ایران کے اندر حکومتی عملداری سے باہر کے مقامات پر وہاں مقیم پاکستانی نژاد بلوچ دہشت گردوں کیخلاف کامیابی سے سرانجام دیا گیا۔ اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت قطعی طور پر ناقابل تسخیر اور مقدس ہے اور کسی طرف سے کسی بھی بہانے اسے مجروح کرنے کی کوشش کا ریاست کی طرف سے پوری طاقت سے جواب دیا جائیگا۔ 
ایران کی جانب سے پاکستان میں بلااشتعال کی گئی کارروائی اور پاکستان کی جانب سے اسکے فوری جواب کے نتیجہ میں پورے خطے میں کشیدگی پیدا ہونا بھی فطری امر تھا اور مشرق وسطیٰ کی پیدا شدہ صورتحال کی بنیاد پر یہ کشیدگی علاقائی اور عالمی امن کے تاراج ہونے کی راہ ہموار کرتی نظر آرہی تھی جس پر عالمی قیادتوں کی جانب سے تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ پاکستان اور ایران دونوں نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے دوطرفہ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے اور تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کرلیا ہے جس سے ان طاقتوں اور عناصر کو یقیناً مایوسی ہو گی جو اس کشیدگی کی بنیاد پر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی  سازشیں رو بہ عمل لانے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے تھے۔

ای پیپر-دی نیشن