اتوار‘ 9 رجب المرجب 1445ھ ‘ 21 جنوری 2024ء
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے لطیف کھوسہ کو توشہ خانہ سائفر کیس سے علیحدہ کر دیا
ایساکیا ہو گیا ہے کہ خان جی نے اپنے اردگرد کے لوگوں میں چھانٹی شروع کر دی ہے۔ پہلے مروت گئے اب کھوسہ کو بھی نکرے لگایا گیا ہے۔ انہیں دو اہم کیسوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہے اس پر یہ بے چارے دور ہونے والے رہنما بجا طور پر کہہ سکتے ہیں۔
کون مانے گا کسے آج یقین آئے گا
ہم وہی ہیں جو کبھی جان سے بھی پیارے تھے
کل تک جن کو کپتان کی ناک کا بال کہا جاتا تھا سمجھا جاتا تھا آج انکو مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے۔ ناک کا بال عزیزازجان ہوتا ہے اور مکھن کا بال وبال جان ہوتا ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا
نیند اس کی راتیں اس کی خواب اس کے
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
اب دیکھا جائے توسر کے بالوں کو ہی زلفیں بھی کہا جاتا ہے۔
اب نئے لوگ نئے چہرے کپتان کے اردگرد نظر آئیں گے۔ ویسے ہی جیسے کبھی فواد چوہدری شہباز گل، مروت اور کھوسہ ہوتے تھے اب دیکھتے ہیں یہ نئے چہرے کپتان کے لیے کسی رعایت کی راہ نکالیں گے یا یہ بھی بند گلی والی راہ پر ہی چلیں گے جبکہ کپتان تو اب خود کہہ رہے ہیں وہ ڈیڑھ سا ل سے مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔ سیاسی آدمی ہونے کی وجہ سے ان کا بھی بات چیت پر یقین ہے۔ اب کیا کریں جب یہ احساس ہوا۔ اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی نکل چکا ہے۔ اب جن کو منایا جا رہا وہ رانجھے ہی مان نہیں رہے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
تیر سے شیرکا شکار کرنے پنجاب آ رہا ہوں۔ بلاول
خدا خدا کر کے میاں نواز شریف نے الیکشن مہم شروع کی اور ایک عوامی اجتماع میں نظر آئے اور تقریر کی۔ اب یہ رونمائی بھی پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول جی سے برداشت نہیں ہو رہی اور انہوں نے پہلی ہی فرصت میں اپنے انتخابی جلسوں میں تابڑ توڑ حملے شروع کر دئیے۔ انہوں نے کہا کہ شیر نظر آ گیا ہے میں تیر سے اس کا شکار کرنے لاہور جا رہا ہوں۔ معلومات کے مطابق اب بلاول نے سندھ میں جلسوں کے بعد پنجاب میں الیکشن میلہ سجانے کا فیصلہ کیا ہے۔ رہی بات شیر کے شکار کی تو دیکھنا ہے شکاری شیر کا شکار کرتا ہے یا شیر شکاری کو ہڑپ کر جاتا ہے۔ دونوں کی قسمت اچھی ہے کہ اس وقت ایک کھلاڑی میدان سے باہر ہے۔ اس کی ٹیم کے باقی کھلاڑی میدان میں موجود ہیں مگر ان میں وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔ اگر وہ خود بلا لے کر میدان ہوتے تو ان کے چوکے چھکے بھی لوگ دیکھتے۔ فی الحال لگتا ہے عوام کو الیکشن میں تیر اور شیر کاکھیل ہی دیکھنے کو ملے گا۔ کہیں کہیں کتاب ، لالٹین اور پتنگ بھی نظر آئے گی ترازو والے بھی رنگ جمانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ عقاب کی یہ پہلی اڑان ہے۔ کوئی جانتا وہ کہاں کہاں پلٹتا اور جھپٹتا ہے۔ میدان جنگ تو پنجاب ہی بنے گا۔ جہاں غضب کارن پڑے گا اور سب امیدوار اور ان کی پارٹیاں مورچہ بند ہو کر بیٹھ رہی ہیں۔ دن بھی کیا رہ گئے ہیں صرف 19 یا 20 دن پھر اس کے بعد منظر نامہ واضح ہو گا کہ تیر ہے شیر ہے یا کوئی اور میدان جیتتا ہے۔
٭٭٭٭٭
دہشت گردوں اور منظور پشتین کے غم میں ماہ رنگ بلوچ کی زبان زہر اْگلنے لگی
بات ہو رہی تھی لاپتہ افراد کی بازیابی کی اور ان کے حوالے سے دھرنے میں جذباتی ماحول کی۔ مگر اچانک ایران کی طرف سے پاکستانی علاقے میں فضائی حملے کے بعد جوابی طور پر جب پاکستان نے ایران کے علاقہ غیر کہلانے والے دشوار گزار علاقے میں بلوچ دہشت گردوں کے زیر استعمال ان کی پناہ گاہوں اور اڈوں کو نشانہ بنایا تو ماحول ہی بدل گیا۔ ایک روز قبل ہی ایرانی فضائی حملے میں پاکستانی علاقے میں 3 بچے اور دو خواتین جاں بحق ہوئیں ان پر ماہ رنگ کے چہرے کا رنگ نہیں بدلا ان کے لہجے میں وہ کاٹ نہیں آئی۔ انہوں نے نہایت آرا م سے یہ کڑوا گھونٹ پی لیا جبکہ پاکستان کے طول و عرض میں اس حملے کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ اب اس کے جواب میں جب پاکستان نے 9 کے قریب دہشت گردوں کو نشانہ بنایا ان کے خفیہ ٹھکانے اڑا دئیے تو اچانک ماہ رنگ کے چہرے کارنگ بدل گیا ان کے لہجے میں وہی نفرت عود کر آئی جو دہشت گردوں کے حامیوں کا وطیرہ ہے۔ انہوں نے آئودیکھا نہ تائو یکدم سخت لہجے میں ایک قومی ادارے اور پنجاب کو رگیدنا شروع کر دیا صاف لگ رہا تا یہ ’’میں نئیں بولدی میرے وچ چچریار بولدا‘‘ والی حالت ہے۔ لگتا تھا بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کا میڈیا سیل والے بول رہے ہیں۔اس سارے کھیل کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے جو ماہ رنگ کا سوشل میڈیا اکائونٹ بھی چلا رہا ہے۔ اس تمام عرصے میں ماہ رنگ صاحبہ نے کبھی ان سینکڑوں بلوچوں اور بلوچستان میں بے دردی سے مارے گئے مظلوم غریب پنجابی مزدوروں محنت کشوں دکانداروں کی موت پرایک لفظ تاسف کا ادا نہیں کیا۔ کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں کیا مارے جانے والے انسان نہیں ان کے گھر والے ان کی راہ نہیں تکتے روتے روتے ان کے آنسو خشک نہیں ہوئے۔ البتہ پشتین کاان کیحواریوں کا غم انہیں کھائے جا رہا ہے کیوں کہ وہ بھی را کے ہی پروردہ ہیں۔
٭٭٭٭٭
پاکستانی کرکٹ ٹیم چوتھا میچ بھی ہار گئی۔ نیوزی لینڈ نے 5 میچوں کی سیریز جیت لی
نیوزی لینڈ کے خلاف اپنا چوتھا میچ بھی پاکستانی ٹیم نے جس تسلسل کے ساتھ نہایت حسن کارکردگی دکھاتے ہوئے ہارا اس پر ساری ٹیم خدا جانے شرمسار ہے یا نہیں مگر کرکٹ کے شائقین بہت بددل ہو گئے ہیں۔ انفرادی طور پر چند کھلاڑی اچھی کارکردگی دکھاتے رہے مگر اجتماعی طور پر پوری ٹیم منتشر الخیال ہی نظر آئی۔ بائولر بلے بازوں سے امیدیں لگائے بیٹھے رہے اور بلے باز بائولروں پر تکیہ کئے رہتے تھے۔ آل رائونڈر تو کوئی لگتا ہے اب ہماری ٹیم میں رہا ہی نہیں۔ فیلڈرز کی کیا بات کریں۔جیت کا جوش و خروش فتح کی روح ٹیم سے یوں رخصت ہوتی نظر آتی ہے جس طرح اس وقت مہنگائی کے باعث پیاز کچن سے غائب ہوتے نظر آ رہے ہیں نجانے کیوں مینجمنٹ بورڈ کی تبدیلیاں بھی اس باروہ رنگ نہ جما سکیں جو فتح کا رنگ کہلاتا ہے اور روح کو خوشی سے سرشار کر دیتا ہے۔ پی سی بی میں فتح کے شادیانے کیا بجتے وہاں تو آنسو بہاتی شہنائی پر ماتمی دھن سنائی دے رہی ہے مگر اس کا بھی اب کسی پر اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سب نے لگتا ہے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہے اور آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے۔ ویسے ہی جیسے ہمارے کھلاڑیوں نے باندھ رکھی ہے۔
٭٭٭٭٭