سید تاثیر مصطفی اور وحید رضا بھٹی کی یادیں
اس روز ان کے چہرے پر رونق تھی اور کسی حد تک اطمنان بھی۔ انکے گلے کا کینسر اس تیزی سے ٹھیک ہو رہا تھا کہ ان کے بقول خود ڈاکٹر بھی حیران تھے۔ کسے معلوم تھا کہ گلڈ کے اجلاس میں یہ ان کی آخری حاضری ہے۔ پھر سیکرٹری ٹرسٹ فرح جاوید سے پتہ چلا کہ وہ شالامار ہسپتال میں ہیں۔ میں پہنچا تو ایک گھنٹہ پہلے ڈسچارج ہو کر چلے گئے تھے۔۔اور پھر وہ واقعی چلے گئے۔ اللہ کی بارگاہ میں۔ہماری آنکھوں نے لاہور کو فیض احمد فیض احمد ندیم قاسمی ڈاکٹر وزیر آغا اور مجید نظامی جیسے بہت سے خوبصورت اور خوب سیرت چہروں سے محروم ہوتے دیکھا ہے ہمارے عہد کے ادب و صحافت کے حوالے سے یہ اور بہت سے دوسرے بڑے قد کے لوگ تھے۔ پھر دوسر ی لڑی کے ستارے ٹوٹنے لگے اور ایسے لگتا ہے کہ آسمان کی روشنی آہستہ آہستہ کم ہو نے لگی ہے۔ چند دنوں کے اندر اندر کتنے لوگ روٹھ گئے ہیں۔ ابھی اسلم کمال اور تاثیر مصطفی کو سپرد خاک کر کے لوٹے ہیں تو وحید رضا بھٹی کے کوچ کی خبر آ گئی ہے۔ سید تاثیر مصطفی اپنی جگہ ایک سکول آف تھاٹ تھے تو وحید رضا بھٹی لاہور کی علمی ادبی اور روائتی تہذیب کی چلتی پھرتی ہنستی مسکراتی تصویر تھے۔ بھٹی صاحب پاکستان رائٹرز گلڈ کے نہ صرف دیرینہ رکن تھے بلکہ ایک مدت تک پہلے پنجاب کی مجلس عاملہ کے رکن اور پھرمرکزی مجلس عاملہ کے رکن کی حیثیت سے ان کی شخصیت کی خوشبو منٹگمری روڈ کی تاریخی عمارت میں پھیلی رہتی تھی۔ بلا کا حافظہ، بے کنار تعلقات اور ہر تعلق سے جڑی ہزار داستانیں جو ان کے لبوں سے جیسے موتیوں کی طرح جھڑتی رہتیں۔ ایک بڑے افسر کی حیثیت بھی کتابوں سے انکے عشق کو شائد اسلئے ختم نہ کرسکی کہ ان کی تربیت ان کے والدین بشیر احمد بھٹی اورخورشید آرا نے ایسی کی تھی۔ پھر سونے پر سہاگہ کہ کرشن نگر میں آنکھ کھولی جو اپنے وقت میں بڑے لکھاریوں کامسکن رہا۔اہل ادب کی خوشبو کرشن نگر یا اسلام پورہ کے در و دیواراور اینٹوں چھتوں میں اسی طرح رچی بسی تھی جس طرح شخ سعدی نے حمام کی مٹی کی ڈلی کی کیفیت بیان کی ہے۔
گلے خوشبوئے در حمام روزے
رسید ازدست محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکے یا عبیرے
کہ از بوئے دل آویزے تومستم
بگفت آن من گلے ناچیز بودم
ولیکن مدتے باگل نشستم
مزاج ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
خلاصہ یہ کہ پھول کی صحبت میں کچھ عرصہ گزارنے والی مٹی کی ڈلی میں بھی مشک جیسی خوشبو آ گئی۔توبھٹی صاحب بھی پہلے کرشن نگر کی فضائوں اور پھر گورنمنٹ کالج میں بڑے قد کی شخصییات کی صحبتوں سے ایک نئے رنگ میں رنگے گئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن اورماسٹر کیا۔ انگلش کی ڈگری ہی نہیں لی پڑھایا بھی بلکہ کئی گورنمنٹ کالجوں میں اور اوپن یونیوسٹی میں انگلش پڑھانے کے بعدسول سروس میں آئے۔ سول سروس میں ٹریڈ کا شعبہ اس لئے چنا کہ پریسٹن یونیوسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کیا ہوا تھا۔ایڈیٹری بھی کی۔ جی سی کے جریدے راوی کے ایڈٹر بنے تو وقت کے تمام نابغوں کی تحریریں راوی کا حصہ بنائیں۔ پھر پاک نامہ کی ایڈیٹری۔ لکھا بھی خوب۔ تجریدی افسانے بھی اور با وفا اور بے وفا اورچھینٹا جیسے وطنیت پرست اور روائت شکن افسانے بھی۔اور پھر 1993ء میں بہترین شارٹ سٹوری رائٹر کے ایوارڈکے حقدار ٹھہرے۔
ترجمہ کی طرف آئے تو عبدالمجید شیخ کی، قصے لاہور کے، جیسی کتاب کا ایسا ترجمہ کیا کہ کراچی کے فیسٹیول ایوارڈ میں یوبی ایل کے بیش قدر و قیمت والا انعام ان کے نام رہا۔اس دور میں انعام کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ نقد معمولی بات نہ تھی۔پنجابی عربی گورمکھی فارسی اردو انگریزی فرانسیسی سمیت کتنی زبانوں کو جاننا اور ان کا استعمال کرنا انہی کا کام تھا۔ شوق کا یہ عالم کہ فرانسیسی زبان میں ڈپلومہ 2003ء میں پنجاب یونیورسٹی سے لیا۔ رائٹرز گلڈ کے ساتھ ساتھ ہماری سنگت کے ساتھ کچھ اور حوالے بھی تھے۔ ہم دونوں کی شادی 1982ء میں ہوئی۔وہ سول سروس کو جائن کر چکے تھے اور اس دوران تین صوبوں میں ان کی گردش جاری رہی سو فون پر کبھی کبھی رابطہ ہوتا یا نقوش کے دفتر میں جاوید طفیل مرحوم کے پاس اکٹھی حاضری ہوتی۔مجھے اللہ نے تین بیٹیوں سے نوازا)جو ماشا اللہ اب سپیشلسٹ ڈاکٹر اور اپنے گھروں میں آباد ہیں۔
(محبی وحید رضا بھٹی کو بھی اللہ نے بیٹیوں سے نوازا۔میری بیٹی ڈاکٹر ندا ایلی کی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تعلیم کے دوران افسانوں کی پہلی کتاب چھپی تو بھٹی صاحب نے خاص طور پر داد دی۔ آج کل بھی نوائے وقت میں ہر جمعہ کو ندا کی کالم کہانی کو دیکھتے تو اکثر ملنے پر تبصرہ کرتے۔ بھٹی صاحب کو اللہ نے استراحت بھٹی، اکتراب بھٹی، افازہ بھٹی، امتیثال بھٹی اورانسا بھٹی کی صورت میں رحمتوں سے نوازا۔وہ اپنے بچوں کی کامیابیوں پر دلی مسرت کا اظہار کرتے اور ساتھ ہی سارا کریڈٹ اپنی بیگم کو دیتے۔ اپنے تمام دوستوں سے اپنی فیملی سے اور پھرادبی رشتوں سے ایک ساتھ نبھانے کا ان جیسا ہنر بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ عسکری 10 میں ان کی رہائش تھی لیکن ان کے مقام کو جاننے والے وہاں نہیں تھے۔ ان کو اصلی لاہور جانتا تھا اور ناصر بشیر کے بقول اگر ان کا جنازہ اسلام پورہ جیسی بستی میں ہوتا تو صفوں کا شمار مشکل ہوتا۔ پھر بھی جذبات سے معمور جنازے میں میں نے محبی مجیب الرحمان شامی اور محبی جمیل اطہر کی موجودگی میں احباب کو دھاڑیں مار کر روتے دیکھا۔اور ایسا کم کم ہوتا ہے۔ بھٹی صاحب والی بہت سی خوبیاں سید تاثیر مصطفی میں بھی تھیں۔ دوستوں سے کمٹمنٹ اور اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنے کی حسرت سید صاحب میں بھی بے پناہ تھی اس حسرت کو ہر حال میں عملی صورت دینے کے لئے بھی انہوں نے سب اوکڑوں کا سامنا کیا اور اپنے خوابوں کے خاکے میں رنگ بھر کررہے۔ اور اس سب کچھ میں انکے ساتھ ساتھ اہم ترین کردار انکی بیگم کا رہا کہ انکے دو بیٹے طلال مصطفی اور ہلال مصطفی انجینئر اور ایک بیٹی ملیحہ مصطفی ڈاکٹر بن کر ان کیلئے اب سراپا دعا ہیں۔وہ ہفت رنگ شخصیت کے مالک تھے۔دھرمپورہ کی آبائی رہائشگاہ کو چھوڑ کر جب ہمارے پڑوس میں آئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ پہلے سے بڑھ گیا۔ بھٹی صاحب کی طرح سید صاحب بھی لاہور کی ایک مدت کی تہذیبی تاریخ کے امین تھے۔بیک وقت منجھے ہوئے ایڈیٹر، صحافتی ٹریڈ یونینسٹ، کالم نگار، پروفیسر، نقاد، مورخ ان کی ذات میں کیا کچھ جمع تھا۔
ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک تک وسیع حلقہ احباب، مجلسی مزاج، بلا کا حافظہ اور اس پر بے لاگ گفتگو کے ماہر۔ سیاست صحافت دینی قیادت غرض ہر سطح پر ان کے رابطے گہرے تھے۔۔ان کے انگنت شاگرد اور وہ بھی جرنلزم کے۔ حساس اتنے کہ اپنے ارد گرد کے حالات پر اکیلے کڑھتے۔ احباب کے کام آتے مگر اپنے دکھ اکیلے سہتے۔ انکے حلقہ احباب میں مختلف نظریات کے حامل احباب شامل تھے۔ لاہور پریس کلب ہو یا مولانا ظفر علی خان فائونڈیشن کی مجالس ہوں۔ آزاد ویلفیر فائونڈیشن کی محفلیں یا لاہور کی معروف یونیوسٹیوں میں ان کی مصروفیات۔ سید صاحب کے آنے سے انکی رونقیں اور بڑھ جاتیں۔ ان کا کالم سائبان پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ رکھتا تھا۔ ممتاز صحافی مجیب الرحمان شامی کے ادارے سے عملی صحافت کا آغاز کرنے والے سید صاحب بعد میں دوسرے بڑے پلیٹ فا رموں پربھی رہے اور ہمیشہ محنت اور دیانتداری کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ کاروان ڈاٹ نیوز کے سید مجاہد علی کا پاکستان میں مورچہ سنبھالے رکھا۔ڈاکٹر مغیث الدین فائونڈیشن کے صدر کے طورپر بھی ان کی خدمات تا دیر احباب کو یاد رہیں گی۔بابری مسجد میں ایک بڑے جنازے کے بعد انکے چاہنے والوں سعید آسی، ممتاز راشد لاہوری، ناصر نقوی، اقبال بخاری جیسے مختلف الخیال صحافیوں نے جس طرح ان کو خراج عقیدت پیش کیا وہ ان کی شخصیت کی ہفت رنگی کا مظہر ہے۔ وحید رضا بھٹی او سید تاثیر مصطفی جیسے سراپا اجلے لوگوں کیلئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسو س تم کومیر سے صحبت نہیں رہی