• news

اورقومی مفادات ذاتی دوستی پر غالب آگئے

 اپریل 1933 ء تک انڈین آرمی میں انڈین آفیسرز کی تعداد مایوس کن تھی۔ اْس وقت فوج میں آفیسرز کی کل تعداد 7154 تھی جس میں کل 143 انڈین آفیسرز تھے یعنی دو فیصد سے بھی کم اور وہ بھی صرف 8 یونٹوں تک محدود تھے۔ لہٰذا’’ انڈیا نائزیشن‘‘ پروگرام پر بہت توجہ دی جانے لگی۔ اس کی ایک وجہ پورے یورپ میں سیاسی چپقلش، جرمنی اور فرانس کی جنگی تیاریاں بھی تھیں۔ ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی کے علاوہ’’ مہو‘‘ بھارت میں آفیسرز ٹریننگ سکول بھی کھول دیا گیا۔ 1938ء تک انڈین آفیسرز کی یہ تعداد 8 یونٹس سے بڑھ کر 21 یونٹس ہو گئی۔ کیڈٹس کی تعداد بڑھا کر 1100 سالانہ کر دی گئی اور انڈین ملٹری اکیڈمی میں تربیت کا دورانیہ اڑھائی سال سے کم کر کے ڈیڑھ سال کر دیا گیا جسے جنگ کے دوران مزید کم کر کے چھ ماہ کیاگیا۔
 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ اْس وقت تک انڈین آرمی آفیسرز کی تعداد 15 فیصد تک بڑھ چکی تھی۔ جب جنگ شروع ہوئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انڈیا آزاد ہو گا یا ایسی کوئی تحریک بھی چل سکتی ہے لیکن حالات نے اچانک رْخ بدلا اور ایشیائی محاذ پر انگریزوں کو جاپانیوں کے ہاتھوں پے در پے شکستیں ہوئیں۔ تقریباً 70-80 ہزار ہندوستانی ٹروپس جاپانیوں کی قید میں چلے گئے۔ جاپانیوں نے اتنی بڑی فوج کو ''INA'' یعنی انڈین نیشنل آرمی میں تبدیل کر دیا جس کا مقصد انگریزوں کے خلاف لڑ کر انڈیا آزاد کرانا تھا۔ 1945ء میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر اسے تباہ کر دیا۔ جنگ کا نتیجہ تو جاپانیوں کی شکست اور انگریزوں کی فتح کی صورت میں سامنے آیا لیکن انگریز سیاسی محاذ پر بھارت میں ہار چکے تھے کیونکہ تحریک آزادی اب حقیقت کا روپ دھار چکی تھی اور انگریزوں کو یہ نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا۔ یہ انگریز قیادت کی سمجھداری تھی کہ بجائے لڑ کر آزادی دینے کے سیاسی طریقے سے بھارت کو آزاد کرنے کافیصلہ کیا۔
 جنگ کے خاتمے سے لے کر ہندوستان کی تقسیم تک آزادی کے کئی منصوبے سامنے آئے لیکن بالآخر فیصلہ ہندوستان کی تقسیم پر ہوا۔ اس فیصلے کے ساتھ بڑا مسئلہ فوج کی تقسیم کا شروع ہو گیا۔ کچھ لوگ بشمول انگریز سینئر افسران بھارتی فوج کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ متحدہ فوج رکھنے کا سب سے بڑا چیمپئن بریگیڈئیر کری آپا تھا جو اْس وقت کیمبرلے سٹاف کالج انگلینڈ میں کورس کر رہا تھا۔ بھارتی ریکارڈ کے مطابق انڈین آفیسرز میں وہ سب سے سینئر تھا لیکن پاکستانی سینئر فوجی افسران کے مطابق بریگیڈ ئیر محمد اکبر خان سینئر تھا جو بعد میں پنڈی سازش کیس میں پکڑا گیا اور اْسے سزا ہوئی جبکہ کری آپا آزاد ہندوستان کا پہلا ہندوستانی کمانڈر انچیف بنا۔ بریگیڈئیر کری آپا نے فوج متحد رکھنے کی سر توڑ کوشش کی۔ اس وقت انگلینڈ میں زیر تربیت تمام ہندوستانی فوجی افسران کی جانب سے ہندوستانی فوج کو متحد رکھنے کی ایک عرضداشت تیار کی گئی جو انڈیا وار آفس میں پیش کی گئی۔ یہ یاد داشت اوائل 1947ء میں کیمبرلے انگلینڈ میں زیر تربیت افسران نے تیار کی۔ اسکا روح رواں میجر بھگت (وکٹوریہ کراس) تھا۔ یہ سب کچھ برگیڈئیر کری آپا کی سر پرستی میں ہوا۔ وار آفس کی معرفت بادشاہ سلامت تک بھی یہ عرضداشت پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ تاریخی حوالوں کے مطابق کئی ایک مسلمان افسران نے بھی اس عرضداشت پر دستخط کئے تھے۔ برگیڈئیر کری آپا کئی سینئر انگریز فوجی کمانڈروں سے ملا، حتیٰ کہ قائد اعظم تک بھی جا پہنچا لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔ ایک فوجی ضیافت میں جس میں قائد اعظم بھی شامل تھے، وہ قائد کے سامنے گیا اور متحدہ فوج کے حق میں دلائل دیئے۔ اسکی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان سولجرزکی تاریخ ایک ہے لہٰذا انہیں ایک ہی رہنا چاہیے۔ خطرے کی صورت میں متحد ہو کر اپنے دشمن کیخلاف لڑنا چاہیے۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم میں ہوا ہے۔ قائد نے تمام دلائل سننے کے بعد کری آپا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’فکر نہ کریں جب ایسا موقع آیا تو ہم اکٹھے ہوں گے۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے۔ بھارتی نکتہ نظر سے کری آپا اپنی کوششوں میں ’’مخلص‘‘ تھا لیکن پاکستانی سینئر افسران کے مطابق یہ نہرو کی چال تھی کہ متحد و فوج رکھ کر بعد میں بذریعہ طاقت تقسیم کے عمل کو غیر فعال کر دیا جائے۔ انگریز بھی فوج کو متحد رکھنا چاہتے تھے تا کہ سیاسی اور فوجی قیادت دونوں انگریزوں ہی کے پاس رہیں۔ ہمارے فوجی سینئر افسران کی سوچ درست تھی کیونکہ وہ موقع پر موجود تھے۔ بعد کے واقعات سے کچھ ایسے نظر آتا ہے کہ کری آپا اپنی کوششوں میں مخلص نہیں تھا اور یہ سب کچھ نہر و کے کہنے پر کر رہا تھا۔ وہ واقعی بہت عیارشخص تھا۔ جب تقسیم کا فیصلہ ہوگیا اور تقسیم کا عمل شروع ہوا تو اگست 1947ء میں انڈین فوجی افسران نے پاکستانی فوجی افسران کو الوداعی ضیافت دی۔اس تفصیل کی سب سے متاثر کن بات وہ ٹرافی تھی جو کری آپا نے پاکستان کے سینئر کمانڈر بریگیڈئیر محمد رضا کو پیش کی۔ چاندی کی اس ٹرافی میں ایک ہندو اور ایک مسلمان سپاہی کو کندھے ملا کر اپنی بندوقوں کے ساتھ مشترکہ دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور یہی وہ آئیڈیا تھا جو کری آپا نے قائد کے سامنے بھی پیش کیا تھا۔ صرف کری آپا ہی نہیں بلکہ بہت سے ہندو اور مسلمان فوجی افسران کی مشترکہ کوشش تھی کہ ہماری یہ تقسیم دشمنی میں نہ بدلے بلکہ بہترین ہمسائے اور بہترین دوست ثابت ہوں۔یہ کوئی غیر معمولی سوچ نہ تھی کیونکہ اْس وقت تک تمام آفیسرز اور تمام جوان ایک دوسرے کے دوست تھے۔ اکٹھے جنگ لڑ چکے تھے ، فیملیز تعلقات بھی تھے۔تقسیم کے فوری بعد دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے خلاف کشمیر میں صف آراء ہوگئیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے یا پھر تاریخ کا سنگدل مذاق کہ کشمیر جنگ کی کمان جنرل کری آپا کے ہاتھ میں تھی اور ادھر سے مری گیریژن کی کمان جنرل رضا کے ہاتھ میں تھی۔کشمیر جنگ کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات پھر ٹھیک نہ ہو سکے۔ درمیان میں کوششیں ضرور ہوئیں لیکن دوستی کی بجائے نفرت کی دیوار بلند ہی ہوتی رہی حتیٰ کہ1965ء میں ایک دفعہ پھر دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ اس دفعہ بھی یہ تاریخ کی ستم ظریفی تھی کہ بھارتی فوج کی کمانڈ جنرل این جے چودھری کر رہے تھے اور پاکستانی فوج کی جنرل محمد ایوب خان۔ دونوں سینڈ ہرسٹ ملٹری اکیڈمی انگلینڈ کے تربیت یافتہ تھے اور گہرے دوست بھی تھے۔تو یوں دوستیاں دشمنی میں بدل گئیں۔ (جاری ہے۔)
٭…٭…٭

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن