ہم اپنے ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
گزشتہ چند دِنوں پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی جب ایران نے پاکستان کے جنوب مغربی سرحدی صوبے بلوچستان میں مسلح گروپ جیش العدل کے مبینہ ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون حملہ کیا اور پاکستان نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے ایران کے اندر مسلح گروپ کے اہداف کو نشانہ بنایا جو پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائی میں ملوث ہوتے ہیں۔واقعے سے پیدا ہونے والی شدید کشیدگی کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہانی کے درمیان بات چیت ہوئی اور دونوں ممالک نے نہ صرف کشیدگی کو کم کرنے پر اتفاق کرلیا بلکہ انسداد ِدہشت گردی اور باہمی تشویش کے دیگر پہلوئوں پر تعاون اور قریبی رابطہ کاری کو مضبوط کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ یہ پہلی بار ہوا کہ دونوں ممالک کی افواج نے اِس طرح کے حملوں کا تبادلہ کیا۔
پاکستان کو اِس وقت بڑے بیرونی اور اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عالمی اور علاقائی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں رْونما ہو رہی ہیں اورپاکستان اْن تبدیلیوں کے اثرات کی زد میں ہے۔ ملکی سطح پر سیاسی عدم استحکام اوربد حال معیشت نے پاکستان کے لئے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔گذشتہ چند ماہ کے دوران بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی منظر نامے میں ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ملک کی لیڈرشپ کو آنے والے وقت میں پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا اور مشکل مگر ناگزیر فیصلے کرنے پڑیں گے۔
پاکستان پر فوری اثر انداز ہونے والے حالات میں چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی مخاصمت ، افغانستان میں امن و امان کی صورت حال ، بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی صورت ِ حال بہت اہم ہیں۔ آنے والے ماہ و سال میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور اداروں کی دانش و بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ کیسے اِن سے نبرد آزما ہوں گے۔
عالمی سطح پر بڑھتا ہوا تنازعہ چین اور امریکہ کے درمیان مقابلہ کے سبب ہے۔ اگرچہ گذشتہ سال نومبر میں امریکی صدر جو بائیڈن اور صدر شی جن پنگ کے درمیان سان فرانسسکو میں ہونے والی ملاقات کو بہت مثبت، انتہائی تعمیری اور نتیجہ خیز قرار دیا جا تا ہے لیکن پھر بھی ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ ایسے مسائل ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان مخاصمت کو ہوا دے سکتے ہیں اور جس کا نتیجہ دونوں طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے جو پہلے سے مشکلات میں گھری دْنیا کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔ ماضی کی سرد جنگ دْنیا کے لئے اچھا تجربہ نہیں تھا۔بالخصوص پاکستان کے لئے یہ اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ اسّی کی دہائی میں سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ پاکستان کے لئے ایسا تجربہ تھا جس کے مضر اثرات سے پاکستان ابھی تک نہیں نکل سکا۔
پاکستان اِس خطے کا ایک انتہائی اہم ملک ہے۔ جیسے جیسے دو بڑی طاقتوں کی کشمکش بڑھے گی پاکستان کے چیلنجز میں بھی مسلسل اضافہ ہو تا جائے گا۔ چین کے خلاف بھارت اور امریکہ کا گٹھ جوڑ اور پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات بھی پاکستان کو مشکل سے دوچار کرتے ہیں کیونکہ بھارت اور امریکہ کا اتحاد پاکستان پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ امریکہ بھارت کی خطے میں نیٹ سیکیورٹی فراہم کرنے والے ملک کے طور پر حوصلہ افزائی کرتا ہے اور خطے کے حوالے سے امریکہ کا بھارت کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کا مربوط نظام قائم ہے جو پاکستان کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔
دوسرا بڑا چیلنج جو پاکستان کو درپیش ہے وہ افغانستان میں امن کا قیام ہے۔ جب طالبان نے امریکہ کو افغانستان سے انخلاء پر مجبور کیا تو امریکہ اور نیٹو افواج نے ایک غیر ذمہ دارانہ انخلاء کیا جس کے لئے شاید طالبان بھی تیار نہ تھے۔ امریکہ کے اِس طرح اچانک چلے جانے سے افغانستان کے اندر ایک سکیورٹی خلا پیدا ہوا جو تاحال پر نہ ہوسکا کیونکہ افغانستان کے اندر بہت سی دہشت گرد تنظیموں نے سر اْٹھانا شروع کر دیا جو عالمی اور علاقائی امن کے لئے خطرہ ہے۔ اِس متوقع دہشت گردی کا اثر پاکستان پر سب سے زیادہ ہوگا اورکچھ تو دہشت گردی کے حملوں کی صورت دِکھائی دینا شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان کو تحریک ِطالبان پاکستان کے بڑھتے ہوئے خطرے کا بھی سامنا ہے۔افغانستان کے ساتھ امن اور دو طرفہ تعلقات بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے پاکستان طالبان کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور خطے میں بھی امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن افغانستان کی طرف سے مسلسل سرد مہری کا رْحجان ہے۔ موجودہ صورتحال میں چونکہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے لئے بھی افغانستان پہلی ترجیح نہیں رہا اِس لئے افغانستان کو تسلیم کرنے اور معاشی مدد کے حوالے سے گریز برتا جا رہاہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ طالبان بھی اْن وعدوں پر عمل کرتے دکھائی نہیں دیتے جو اْنھوں نے دْنیا کے ساتھ اِنسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالے سے کئے تھے۔ افغانستان میں امن چین کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ پاکستان اور چین کے لئے وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی بھی افغانستان میں امن سے مشروط ہے۔
ہندوستان بھی پاکستان کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے سرد مہری کے رہے جس کی بڑی وجہ تنازعات اور بھارت کا رویہ ہے۔ حالیہ تنائو کی بڑی وجہ کشمیر میں غیرآئینی اقدامات ہیں جو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا باعث ہیں۔
2019ء کے بعد جب بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی اور ظالمانہ کرفیو لگا دیا تو دونوں ممالک کے تعلقات محدود ہو گئے۔ ہندوستان میں بھی مودی سرکار کی ’’ہندوتوا‘‘ پالیسی کا نشانہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ ہندوستان میں رہنے والی دوسری اقلیتیں بھی ہیں۔ ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور فسطائی رویے کی وجہ سے تعلقات میں مستقبل قریب میں بہتر ی کے روشن امکانات نہیں ہیں۔
پاکستان کے لئے سب سے بڑا چیلنج اِس وقت درپیش اندرونی مسائل ہیں۔ دہشت گردی ، سیاسی عدم استحکا م اور معاشی صورتحال کے حوالے سے پاکستان ایک غیریقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی وجہ سے پاکستان میں تحریکِ طالبان پاکستان نے دوبارہ سر اْٹھایا اور گزشتہ چھ ماہ سے پاکستان کو دہشت گرد ی کی وجہ سے بھاری جانی اور مالی نقصان بھی اْٹھانا پڑا۔ پاکستان میں جاری سیاسی رسہ کشی اور عدم استحکام مزید مسائل میں دھکیل رہے ہیں۔ ملک کی معیشت دن بہ دن تنزلی کا شکار ہے۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے اور مہنگائی کی شرح میں 31.5 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے جو عام لوگوں کے بہت مشکلات کا باعث ہے۔سکیورٹی ، سیاسی عدم استحکا م اور معیشت کی بدحالی کا منفی اثر پاکستان میں جاری سی پیک پر بھی ہوا۔ گو چین نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی لیکن حالات کی وجہ سے سی پیک کے بہت سے منصوبے متاثر ہو ئے جس کی وجہ سے مجموعی طور پر سی پیک کے منصوبوں میں سست روی کا تاثر اْبھرا۔
میری رائے میں اِس وقت تمام چیلنجز میں سب سے اہم پاکستان کے اندرونی خلفشار سے پیدا شروع ہونے والی صورتِ حال ہے۔پاکستان پر اثر انداز ہونے والے عالمی اور علاقائی مسائل کا حل پاکستان کے امن و استحکام سے مشروط ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ سب سے پہلے گھر ٹھیک کرنا اہم ہے۔ اگر ہم گھر کے مسائل کو حل کر لیں گے تو باقی مسائل کی راہیں خود بخود نکلیں گی۔ اگر گھر منظم نہیں ہوگا تو ہم نہ صرف بیرونی خطرات سے نہیں نمٹ سکیں گے بلکہ ہم باہر سے آنے والے اچھے مواقع سے بھی فائدہ نہیں اْٹھا سکیں گے۔ میں اکثر یہ بات دْہراتا ہوں۔ ہم دوست ممالک سے پوچھتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے کیا کر سکتے ہیں لیکن ہم کبھی خود سے نہیں پوچھتے کہ ہم اپنے ملک کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ میری نظر میں یہ اہم نہیں کہ دْنیا ہمارے لیے کیا کر سکتی بلکہ یہ اہم ہے کہ ہم اپنے ملک کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ شایدیہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم خود اپنے ملک کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔