مقدر ، آزمائش یا مکافات عمل
تقدیر پر ایمان ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جیسے ہی انسان شعور کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تو خالق کائنات اس کے سامنے دو راستے رکھ دیتا ہے : صراط المستقیم اور غیر المغضوب۔کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جب شیطان کو مہلت عطا فرمادی ، تو اس نے کہا ’’اب میں تیرے بندوں کو قیامت تک بہکائوں گا ،آگے سے پیچھے سے ،دائیں سے بائیں سے ‘‘تواللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :’’جو میرے بندے ہونگے وہ تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے لیکن جولوگ تیری پیروی کریں گے میں تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔‘‘اس سے واضح ہے اگرچہ مقدر لکھا جا چکا ہے لیکن ہر شخص زندگی گزارانے کا راستہ اور طریقہ خود چنتا ہے۔بعد ازاں اسکے انتخاب میں آسانیاں اور برکتیں اللہ کی طرف سے شامل ہو جاتی ہیں جو اسے بد نصیب یا با نصیب بناتی ہیں یعنی انسان تدبیر سے تقدیر بدل سکتا ہے لیکن اگر کوئی برے راستے پر چلتے ہوئے وہ سب پا لیتا ہے جس کے حصول میں کئی نامی بے نام و بے نشان ہوگئے اور اپنی اس پر تعیش حیات کو اللہ کی عطا قرار دیتا ہے تو اس سے بڑا کوئی نادان نہیں ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ایسا ناعاقبت اندیش شخص دنیا میں بھی دیر یا بدیر وہ مکافات عمل کی چکی میں آجاتا ہے کیونکہ وہ نہ صرف لوگوں کو دھوکا دیتا ہے بلکہ اللہ کے غضب کو بھی آواز دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نشان عبرت بن جاتا ہے۔تاریخ انسانی ایسے خود ساختہ فرعونوں سے بھری پڑی ہے لیکن۔۔وائے افسوس ! کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ! یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ آج کل اکثر بری شہرت اور بگڑی ہوئی خصلت کے حامل افراد نام اور عہدہ پا لیتے ہیں جس کے بعد وہ اسے فضل الٰہی قرار دیتے رہتے ہیں۔ چلیں وہ تو گمراہی کے راستے پر ہیںلیکن انکے قریبی حلقہ احباب میں موجود افراد جو انھیں ’’مقدر کا سکندر ‘‘ لکھتے ہیں کیا وہ کفر کے مرتکب نہیں ہوتے ؟اس سے بالاتر وہ متاثر ہیں ، مجبور ہیں یا نا امید ہوچکے ہیں دونوں صورتوں میں ایسے کلمات کفر کے زمرے میں آتے ہیں کہ محض چند کوتاہ بینوں کی دیدہ دلیری دیکھ کر انھوں نے اللہ پر برا گمان باندھ لیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملکی حالات اور بحران بے قابو ہوچکے ہیں اور ہم لمحہ بہ لمحہ زوال کی طرف جا رہے ہیں۔
جب بھی زوال کی بات کی جاتی ہے تو ملکی کرتا دھرتا چیخ اٹھتے ہیں کہ ملک تو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے چونکہ آپ مخلص نہیں اس لئے ایسی بات کرتے ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے حکمرانوں کو آئینے اتنے برے کیوں لگتے ہیں ‘ کیوں نفس کی سیاہ کاریاں نہیں دیکھی جاتیں ؟ جس ملک میں مجرموں کو لگام ڈالنے والا محکمہ پولیس ، ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل رپورٹ میں سب سے کرپٹ محکمہ قرار پائے ، جہاں پورے ملک میں مافیاز نے لوٹ مار مچا رکھی ہو، جہاں روٹی ایک وقت کی خریدنا غریب مزدور کیلئے مشکل ، دال اور آلو بھی غریب کی پہنچ سے دور ہو جائیں اور بجلی ، پانی اور گیس کے بلوں میں بھی ناجائز ٹیکس لگا کر عوام الناس کو لوٹا جا رہا ہو مگرکوئی فریاد نہ سنے ، پیسے نہ ہونے کیوجہ سے لاکھوں بچے سکول چھوڑ جائیں اور ادارے بند ہو جائیں ، ہسپتالوں کی حالت زار سوالیہ نشان ہو کہ ادویات بھی نایاب ہوجائیںلیکن الٹا اربوں کے پراجیکٹس کی بازگشت سنائی دے کہ جیسے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔۔ایسی جھوٹی خبریں سن کر عوام الناس عدم برداشت کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگیں تو مجھے بتائیں کہ معاشی اور معاشرتی زوال اور کسے کہتے ہیں؟ پاکستان وہ ملک ہے کہ جہاں کرپشن کی کہانیاں بھی نئی نہیں کہ نوے کی دہائی سے جتنی بھی منتخب حکومتیں بنیں وہ کرپشن الزامات کے ہاتھوں ختم ہوئیں کہ کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کا سرے محل سامنے آیا تو کبھی میاں نواز شریف کے رائے ونڈ فارم کے چرچے ہوئے ،کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے غیر ملکی اکائونٹس کی با ت ہوئی تو کبھی میاں نواز شریف کے لندن فلیٹس کا ذکر ہوا اور یہ سبھی قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ یہ الزامات تاریخ کا حصہ ہیں اور ملکی و غیر ملکی سبھی بڑے اشاعتی اخباروں کی زینت ہیں لیکن اشرافیہ کیلئے منصفوں کے دوہرے معیار ہمیشہ سوالیہ نشان رہے اور اسی صف میں عمران خان کھڑے ہوچکے ہیں اور الزامات کی زد میں، زیر عتاب ہیں یقینا وقت پلٹ سکتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ انھوں نے اپنے حوصلوں کو اتنا بلند کر لیا کہ اپنی لگائی آ گ میں جلنے لگے اور اب بھی وہ اپنے ارد گردآگ بجھانے کی نہیں بلکہ بھڑکانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ پاکستان کی سیاسی بساط سے اٹھا دیا گیا ہے لیکن وہ پر یقین ہیں کہ بازی پلٹ سکتے ہیں ایسی نادانیوں اور من مانیوں کا فائدہ پرانے سیاسی بازیگروں کو ہو رہا ہے جو کہ ملک کی بربادی اور اپنے غلطیوں کا قصوروار بھی انھیں ٹھہرا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سرخرو ہوئے ہیں ! چونکہ الیکشن میں چند روز باقی ہیں اسلئے تھوڑی بہت انتخابی ہلچل بھی شروع ہو گئی ہے اور ہر کوئی تارے توڑ کر لانے کا وعدہ کر رہا ہے۔عوام سوچ رہے ہیں کہ چالیس گاڑیوں کی برات لانے اور اربوں کے گھروں میں زندگیاں گزارنے والے یہ وہی لوگ ہیں جو نسل در نسل سے حکمران ہیں اور ہم غلام ہیں۔یونہی برسر اقتدار آتے ہیں اور دلکش وعدوں اور دعووں کا چورن بیچ کر اپنا دور اقتدار طفل تسلیوں اور گذشتہ حکومتوں کو کوستے گزارتے ہیں اور اگر عتاب میں بھی ہوں تو بھی ان کی شان و شوکت میں کمی نہیں آتی بلکہ اداروں سے محاذ آرائی اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں اور جب انکی دیکھا دیکھی کارکنان بھی یہی نظریہ اپناتے ہیں تو سزائوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔یہ کیسا انصاف ہے کہ اشرافیہ کو سب معاف ہے لیکن غریب سوال بھی کرے تو اس کے اوپر اتنی ایف آئی آرز رج ہو جاتی ہیں کہ جو کبھی کسی مجرم پر نہیں لگتیں بلکہ مجرم تو پریس کانفرنس کر کے وکٹری کا نشان بناتے جیلوں سے باہر آجاتے ہیں۔
اگرچہ حالیہ منظر نامہ بہتری کا نقارہ بجا رہا ہے لیکن عرض ہے ، یہ منظر وقت کی گھڑیوں نے پہلے بھی دیکھے ہیں۔بیانات بھی وہی ہیں ، انداز بھی وہی ہے ، دھاڑ بھی وہی ہے اور للکار بھی وہی ہے لیکن ایک چیز فرق ہے۔اب کے شعور کی پرواز بہت اونچی ہے اور نوجوان نسل روایتی ہتھکنڈوں کوسمجھ چکی ہے۔اس لئے پہلے سا کچھ نہیں ہوگاالبتہ اگر کوئی واقعی گنہگار ہے تو اللہ کی رسی دراز ہے اور گزرے وقتوں میں ہر طاقتور اور سرکش کو اپنے مال و دولت اور خود پر گھمنڈ تھا کہ وہ اپنے پر آسائش زندگی کو اللہ کی عطا سمجھتا تھا اور اقتدار میں ہو نے کے باوجود غریب و مساکین کو نفرت سے دیکھتا تھا ، کسی کو کچھ نہیں دیتا تھا بلکہ چھیننے کے طریقے ایجاد کر رکھے تھے توپھر اسے اسی مال و دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا گیابلاشبہ وہ کبھی دے کر آزماتا ہے اور کبھی لیکر آزماتا ہے۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم اسے کیا سمجھتے ہیں۔۔مقدر (فضل ربی ) ، آزمائش یا مکافات عمل ؟