• news

منگل‘  11   رجب المرجب   1445ھ ‘  23    جنوری   2024ء

بس بہت ہو چکا مخالفین اب ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ بیرسٹر گوہر۔ 
اس لیے کہتے ہیں جب وقت آپ کے ہاتھ میں ہو تو آپ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں تاکہ جب وقت آپ کے خلاف اور دوسروں کے حق میں ہو تو وہ بھی آپ کے لیے آسانیاں پیدا کر کے حساب دوستاں چکتا کریں۔ ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ ہم اس کے الٹ کرتے ہیں۔ وقت جب اپنے ہاتھ میں ہو تو ہم کسی سے رعایت نہیں کرتے اور جب وقت دوسروں کے ہاتھ آتا ہے تو وہ کوئی رعایت نہیں کرتے۔ یوں نفرت کی سیاست جنم لیتی ہے جس میں ہمارے زبان دراز رہنما تیل چھڑکنے کا کام بخوبی کرتے رہتے  ہیں۔ یوں دوسروں کی عزت نفس مجروح کرتے کرتے وہ خود اپنی عزت نفس بھی مجروح کرواتے ہیں۔ آج پی ٹی آئی کے سربراہ بیرسٹر گوہر کا یہ بیان سچ کہیں تو ’’میں اپنی شکست کی آواز ہوں‘‘ معلوم ہو رہا ہے۔ آج وہ جس طرح یہ سب کہہ رہے ہیں کاش انہوں نے اپنے رہنما کو بھی سمجھایا ہوتا۔ انہیں بھی دوسروں کو رعایتیں دینے کا کہا ہوتا۔ مگر ایسا نہیں تھا اس وقت یہ سب بھول گئے تھے کہ حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ ایک بھی بے کار ہو جائے تو دوسرے پر بھی اثر پڑتا ہے اور گاڑی خراب ہو جاتی ہے۔ اس کا چلنا مشکل ہو جاتا ہے جس طرح ا س وقت ہو رہا ہے۔ دیکھ لیں بقول بیرسٹر گوہر ہمارے کپتان نے تو اپنے بلے یعنی انتخابی نشان کو بچانے کے لیے پارٹی کا عہدہ بھی چھوڑ دیا تھا، اس کے باوجود معاملات درست نہیں ہو رہے اب ہمارے مخالفین ذرا ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھیں اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ امید ہے مخالفین اس درد بھری آواز پر کان دھریں گے ورنہ اس وقت تو پی ٹی آئی والے…’’جائیں تو جائیں کہاں سمجھے گا کون یہاں درد بھرے دل کی زبان‘‘ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن کے دو بھائی اور دو بیٹے بھی الیکشن ریس میں شامل۔ 
یوں تو ہماری تمام سیاسی جماعتیں موروثی سیاست دفن کرو کے بیانیے پر زور دیتی ہیں مگر حقیقت میں ان تمام جماعتوں کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ چند ایک سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر سب اس بھیڑ چال کا شکار ہیں۔ یعنی ایک جانور کے پیچھے دوسرا سر جھکائے چلا جاتا ہے چاہے آگے کھائی ہی کیوں نہ ہو۔ یوں سب اسی میں جا گرتے ہیں کوئی خود سے نہیں سوچتا آنکھ سے نہیں دیکھتا۔ پوری دنیا میں پدرم سلطان بود والا فلسفہ دفنایا جا چکا ہے۔ مگر ہمارے ہاں موجود ہے۔ ہر جماعت کا سربراہ اپنے خاندان کو آگے لانا چاہتا ہے تاکہ ان کی سیاسی برتری قائم رہے۔ مذہبی جماعتیں بھی اب اس بھیڑ چال کا شکار ہو رہی ہیں۔ مولانا طاہر القادری کی عوامی تحریک ہو یا مرحوم شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان۔ بس لے دے کر جماعت اسلامی ہے جو  اس ڈگر سے ہٹ کر چل رہی ہے۔ اب موجودہ الیکشن میں دیکھ لیں جے یو آئی فضل الرحمن گروپ کے رہنما مولانا فضل الرحمن تو الیکشن لڑ ہی رہے ہیں مگر انہوں نے اپنے دو بیٹوں کے علاوہ دو بھائی بھی انتخابی میدان میں اتار دیئے ہیں۔ ایسا ہی کئی دوسری جماعتوں میں ہو رہا ہے۔ شاید سیاسی رہنما ہر صورت خود یا اپنے خاندان کے کسی فرد کو علاقے کی سیاست میں اور حکومت میں موجود رکھ کر اپنی دھاک بٹھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یوں خاندانی سیاست کا بھوت ہر جگہ ناچتا نظر آتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
کچے کے علاقے میں 8 مغویوں کی رہائی کے لیے پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن جاری۔
 کچے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے اعلانات اور ایکشن لینے کے حکومتی اقدامات سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ آئے روز مغویوں کی برآمدگی کے لیے کچے کے علاقے میں آپریشن اور مغویوں کی برآمدگی اور اسی طرح ڈاکوئوں کی ہلاکت اور برآمدگی کے علاوہ ڈاکوؤں کے سرنڈر کرنے کے واقعات  سننے کو ملتے ہیں۔ مگر ابھی تک کچے کے ڈاکو بار بار ٹھکانے مسمار ہونے کے، حکومتی اعلانات کے باوجود وہاں ہی ہیں اور اغوا کا کاروبار بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نجانے کیوں حکومت کو سمجھ نہیں آ رہا کہ جب تک ان ڈاکوئوں کے سرپرست اور سہولت کار بااثر افراد موجود ہیں ان ڈاکوئوں کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ہاں اگر ان کے سہولت کاروں اور پناہ گاہوں کو ختم کیا جائے تو ان کی کمر ٹوٹ جائے گی اور انہیں بہرحال یا تو علاقے سے بھاگنا ہو گا یا ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔ ورنہ پورے علاقے کو کارپٹ بمباری کرکے ان سے پاک کرانا ہو گا۔ آج کل پھر گھوٹکی میں 8 مغویوں کی برآمدگی کے لیے اپریشن جاری ہے مگر پولیس اور رینجرز کے اس مشترکہ آپریشن کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ دونوں طرف سے ٹھاہ ٹھاہ ہو رہی ہے۔ انتظامیہ مغویوں کو برآمد کروا کر یہاں آپریشن کلین اپ حقیقت میں شروع کرے۔ ڈاکوئوں کی اس بستی کو بلڈوز کر کے علاقے کے لوگوں کو امن سکون اور ڈاکو?ں کے خوف سے نجات دلائے یا اس پورے علاقے کو فوجی چھائونی بنا کر یہاں زراعت ، تعلیم اور تعمیر و ترقی کی راہ ہموار کرے تاکہ یہاں سے ڈاکو نہیں پڑھے لکھے جوان سامنے آئیں۔ 
٭٭٭٭٭
پاکستان افغانستان بارڈر پر ہزاروں مال بردار گاڑیاں پھنس گئیں۔ 
پاکستان اور ایران کے درمیا ن جو تھوڑی بہت ٹینشن تھی وہ خیرو خوبی سے اختتام کو پہنچی۔ اس پر جشن منانے والے عناصر کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ وہ اب اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ اب اگر ایسی ہی پھرتی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹریڈ کے حوالے سے بھی دکھائی جائے اور یہ مسئلہ حل کیا جائے تو کم از کم اس سے ان ہزاروں مال بردار گاڑیوں کے مصائب کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے جو پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں طرف اس شدید سرد موسم میں پھنسی ہوئی ہیں۔ اربوں روپے کا سامان ضائع ہونے کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔ بے شک اب پاکستان نے سرکاری اجازت کی شرط لگائی ہے مگر اس کے طریقہ کار میں تھوڑی بہت بہتری کی راہ نکالی جائے اور جب تک تمام ٹرانسپورٹر سفری اجازت حاصل نہیں کرتے رعایت سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ اب افغانستان نے بھی پاکستان سے آنے والی گاڑیوں پر اس قسم کی پابندی لگائی ہے۔ 
یوں 9 روز سے بارڈر کے دونوں اطراف میں حالات دگرگوں ہیں۔ امید ہے دونوں ملکوں کے حکام اس بارے میں عوامی پریشانیوں کا ازالہ کرتے ہوئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ مسئلہ حل کریں گے۔ باہمی تجارت میں دونوں ملکوں کا ہی فائدہ ہے شرط یہ ہے کہ یہ جائز اور قانونی طریقے سے ہو۔ سمگلنگ کی لعنت دونوں کے لیے نقصان دہ  ہے خاص طور پر پاکستان کو ہر سال اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن