• news

پاکستان اور چین کا سی پیک کے خلاف پراپیگنڈا مسترد

بین الاقوامی رابطہ کاری اور تعاون پر سی پیک کے جوائنٹ ورکنگ گروپ کا چوتھا اجلاس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس کی مشترکہ صدارت سیکرٹری خارجہ پاکستان اور چین کے نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ نے کی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سی پیک سمیت بین الاقوامی تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک کا عزم مثالی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے تعاون اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں سی پیک کی اہمیت کا اعادہ کیا۔سیکرٹری خارجہ نے دلچسپی رکھنے والے تیسرے فریق کا خیر مقدم کرنے پر بھی زور دیا۔ فریقین نے صنعت، زراعت ،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی پر توجہ مرکوز کرنے پر اتفاق کیا۔فریقین نے لوگوں کے لیے سماجی و اقتصادی فوائد کو یقینی بنانے پر بھی اتفاق کیا۔ اجلاس میں سی پیک کے بارے میں غلط معلومات پر مبنی معلومات اورپروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے فریقین نے غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
آج جدتوں کا دور ہے، پوری دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ ایک ملک کا دوسرے ممالک پر انحصار پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجی دنیا کو ترقی کی بلندیوں پر لے جا رہی ہے۔پاکستان اور چین ہمیشہ سے ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں۔ہر ٹیکنالوجی کی اپنی اہمیت ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کسی بھی ملک، معاشرے اور انسانوں کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔چین اور پاکستان کا ہر شعبے میں تعاون جاری ہے۔کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اس سے سب سے پہلے نجات چین نے حاصل کی۔چین کے تجربات سے پوری دنیا نے استفادہ کیا۔اس حوالے سے پاکستان اور چین کا دو طرفہ تعاون بھی اپنی مثال آپ ہے۔پاکستان اور چین کی دوستی کی عالمی سطح پر بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔چین کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان بھی اسی کی طرح ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے۔چین کی طرف سے زراعت صنعت اور دفاع سمیت ہر شعبے میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا گیا ہے۔پاکستان کے دشمنوں کو چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی اور دوستانہ تعلقات کھٹکتے رہے ہیں۔پاکستان کے دشمنوں میں بھارت سر فہرست ہے اور کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو پاکستان کو دوست تو کہتے ہیں لیکن ان کے اندر سے منافقت نہیں جاتی۔ وہ بھی پاکستان کو ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔بھارت تو پاکستان کا ازلی اور ابدی دشمن ہے۔ وہ کھل کر پاکستان کی مخالفت کرتا ہے۔اس نے ہمیشہ پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی مگر اس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکا۔پاکستان کے اندر چینی مفادات کو بھارت کی طرف سے کئی بار دہشت گردی کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ان میں چین کے کئی انجینئرز اور سفارتی عملے کے لوگ اپنی جان سے جا چکے ہیں۔ چین چونکہ بھارت کی ذہنیت اور سازشوں کو سمجھتا ہے اس لیے پاکستان کے ساتھ دوستی میں کبھی فرق نہیں آ یا۔
بھارت کے لیے سی پیک منصوبہ شروع دن سے ناقابل برداشت رہا ہے۔ اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خود بھی اور دیگر ممالک کو بھی ساتھ ملاکر اس منصوبے کو ناکامی سے دو چار کرنے کی سازشیں بروئے کار لاتا رہا ہے۔بھارت کے لیے یہ منصوبہ کیسے قابل برداشت ہو سکتا ہے۔ یہ 2015ء سے 2030ء تک کا 62 ارب ڈالر کا پراجیکٹ ہے جس میں پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے علاوہ اس منصوبے کے تحت سڑکوں کے جال بچھانا، ریلوے میں انقلابی تبدیلی لانا، شمالی اور جنوبی معاشی کوریڈور قائم کرنا اور بیجنگ کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانا شامل ہے۔
 اس سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا اور ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔ پاک چین بڑھتے ہوئے تعاون کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سی پیک کے ذریعے چین کو خلیجی اور مشرقی افریقہ کے ممالک تک پہنچنے کے لیے انتہائی کم مسافت والا راستہ مل گیا۔یہ سب بھارت کے مفادات کے خلاف تھا اس نے امریکہ کو بھی ساتھ ملا لیااور اپنی ناپسندیدگی کئی مواقع پر ظاہر کی۔ان کا ابتدائی حملہ سی پیک کے بارے میں غلط معلومات کی مہم تھی جس کے تحت پاکستان کے لیے اس منصوبے کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے۔یہ مہم بدستور جاری ہے۔ اس منصوبے کا دوسرا اہم جزو پاکستانی حکومت کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کر کے اس کے سی پیک سے متعلق عزم کو متزلزل کرنا تھا لیکن پاکستان نے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔ چین بھی پاکستان کے شانہ بشانہ رہا،یہی اس منصوبے کی کامیابی کا راز ہے۔
اتنا بڑا منصوبہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔اس میں افغانستان شامل ہو چکا ہے سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی کی طرف سے چینی وزیر خارجہ کے ساتھ اجلاس میں دیگر ممالک کو بھی اس منصوبے میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔اس منصوبے میں وسط ایشیائی ریاستوں کے شامل ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔
بھارت نے سی پیک کی ناکامی کے لیے عالمی سطح پہ راگ بھی الاپنا شروع کر دیا تھاکہ یہ منصوبہ ان علاقوں سے گزرے رہا ہے جو متنازعہ ہیں۔اس حوالے سے امریکہ کی طرف سے بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملائی گئی۔ پاکستان نے کبھی انکار نہیں کیا کہ سی پیک متنازع علاقوں سے گزر رہا ہے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا تنازعہ مستقل بنیادوں پر ختم کر دیا جائے۔اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے۔بھارت رائے شماری کروا لے۔ اگر بھارت کسی علاقے کے متنازعہ ہونے کا پراپیگنڈہ شروع کر دے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں پہ کوئی بھی ترقیاتی کام نہ ہو ،ان لوگوں کو زندگی کی سہولتیں ہی میسر نہ ہوں۔
چین کا روڈ اینڈ بیلٹ کا منصوبہ بھی بروئے عمل ہے جو تین براعظموں کو آپس میں ملاتا ہے۔بھارت کو اس سے بھی بڑی تکلیف ہے۔ بھارت نے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے گزشتہ سال ستمبر میں دہلی میں ہونے والی جی 20 کانفرنس میں مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور کے منصوبے کی تجویز پیش کی۔اس کانفرنس میں چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر پیوٹن شریک نہیں ہوئے تھے۔ ان ممالک کی طرف سے بھارت کے اس روٹ کی مخالفت کی گئی بھارت کی یہ سازش بھی کامیاب نہ ہو سکی۔بھارت ایک سازش کی ناکامی کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ نہیں جاتا بلکہ وہ نئی سازشوں کا جال بننے لگتا ہے۔ان پر پاکستان اور چین کی ہمہ وقت نظریں ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن