• news

اداروں کے درمیان توازن کیلئے محتاط چلنا ہو گا، چیف جسٹس: شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ محفوظ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس  کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف اپیل پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ شوکت صدیقی کے الزامات تسلیم کررہے ہیں یا مسترد؟۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہم تمام الزامات مسترد کررہے ہیں۔ شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید الزامات کی تردید کررہے ہیں، یہی ہمارا کیس ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو پہلے انکوائری کرانا چاہیے تھی، اس میں ہمیں فیض حمید پر جرح کا موقع ملتا۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا انکوائری کی گئی تھی؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب شوکت صدیقی نے تقریر تسلیم کرلی تھی تو انکوائری نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کہہ چکے حقائق کی انکوائری نہیں ہوئی، اب بتائیں کیا تجویزکرتے ہیں، کارروائی کیسے چلائیں؟۔ اگر شوکت صدیقی کے الزامات سچے نہیں تو کیا ہوگا؟ شوکت صدیقی جو کہہ رہے ہیں مخالف فریق اسے جھٹلارہے ہیں، کون سچا ہے کون نہیں یہ پتہ لگانے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟۔ انکوائری میں الزامات درست ثابت ہوں مگر لگائے پبلک میں پھر بھی ہٹایا جاسکتا ہے؟۔ ہمیں مسئلے کا حل بھی ساتھ ساتھ بتائیں۔ شوکت صدیقی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کا حکم کالعدم قرار دے، میرے موکل کی تقریرکی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیسے اور کس قانون کے تحت کمیشن بنانے کا حکم دے؟۔ حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں کمیشن تشکیل دیتی رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے سوال اٹھایا کہ انکوائری میں الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں توکیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟۔ جن پر الزام لگایا گیا ہم نے ان کو فریق بنانے کا کہا، سچ کی کھوج کون لگائے گا اب؟۔ ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہاں آئینی اداروں کی تکریم کا سوال ہے، ان حالات میں سوال یہ ہے کہ ہم کیا حکم نامہ جاری کریں، جس طرح الزامات لگائے گئے کیا یہ ایک جج کیلئے مناسب تھا۔ ہمیں حقائق کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اگر تقریرکرنے پر جج کو ہٹایا جائے  پھر تو آدھی عدلیہ گھر چلی جائے گی، بارکونسلز کی میٹنگز میں کئی ججز تقریریں کرتے ہیں، مسئلہ تقریر کا نہیں تقریر کے متن کا ہے، جج کا کوڈ آف کنڈکٹ جج کو تقریر کرنے سے نہیں روکتا، مسئلہ تب ہوتا ہے جب آپ اپنی تقریر میں کسی پر الزامات لگا دیتے  ہیں، برطانیہ میں ججز انٹرویو بھی دیتے ہیں، امریکا میں سپریم کورٹ ججز بحث مباحثوں میں بھی حصہ لیتے ہیں، اگر الزامات درست بھی ہیں تو کیا شوکت صدیقی کا بطور جج طریقہ کار مناسب تھا؟۔ تقریریں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں، جج کے تقریرکرنے پر پابندی نہیں، ایسا ہوتا تو بار میں تقاریر پر کئی ججز فارغ ہو جاتے، مسئلہ شوکت صدیقی کی تقریر میں اٹھائے گئے نکات کا ہے۔ کیا عدالت خود اس معاملے کی تحقیقات کرسکتی ہے؟۔ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس آئینی طورپر ریمانڈ ہوسکتا ہے؟۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس واپس نہیں بھیجا جاسکتا، شوکت صدیقی ریٹائر ہوچکے، بطورجج بحال نہیں ہوسکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین تسلیم کررہے ہیں کہ مکمل انکوائری نہیں ہوئی، جج کے خلاف کارروائی میں پوچھا جاتا ہے اس کا شفاف ٹرائل کا حق کہاں جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ شوکت صدیقی کو بغیر انکوائری ہٹانا طے شدہ قانونی تقاضوں کے منافی ہے، جج کو انکوائری کے بغیر ہٹایا نہیں جاسکتا، یہ بنیادی حق کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا شوکت صدیقی پر فرد جرم عائد ہوئی تھی؟۔ حامد خان نے کہا کہ شوکاز نوٹس دیا گیا تھا لیکن فرد جرم عائد نہیں ہوئی تھی، کونسل میں سابق چیف جسٹس اسلام آباد انور کاسی کے خلاف بھی کارروائی جاری تھی۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف کارروائی 2 ماہ چلی، جواب بھی جمع کرایا گیا، یہ کہنا درست نہیں کہ شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا، انہوں نے دو جوابات بھی جمع کرائے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک مضبوط آئینی باڈی ہے،آپ کہہ رہے تھے انکوائری کمیشن بنادیں؟۔ جوڈیشل کونسل کی موجودگی میں کمیشن بنانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ آرٹیکل 210 پڑھیں تو سپریم جوڈیشل کے پاس وسیع آئینی اختیارات ہیں، ہرآئینی باڈی یا ادارے کے پاس آزادانہ فیصلے کا حق ہے، سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی آئینی ادارے کی نگراں نہیں ہے، سپریم کورٹ صرف آئینی خلاف ورزی کی صورت میں حرکت میں آسکتی ہے۔ موجودہ کیس میں بہت محتاط چلنا ہوگا کہ کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نہ ہو، شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ بھی 50 سال تک بطور عدالتی نظیر استعمال ہو سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فریقین کو سوالات کے جوابات تین ہفتوں جمع کروانے کی ہدیات کر دی ہے۔ سماعت کے آغاز پر خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ میں فیض حمید اور عرفان رامے کا وکیل ہوں۔ وسیم سجاد نے بھی بتایا کہ میں سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ انور کانسی کا وکیل ہوں۔ دوران سماعت شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے معاملے کی انکوائری ہونی چاہیے، سپریم جوڈیشل کونسل صدر پاکستان کو بنا انکوائری کوئی رپورٹ پیش نہیں کرسکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل پر الزام کیا ہے؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ تقریر کرنے کا الزام ہے، سپریم کورٹ میرے خلاف حکم کو ختم کرے۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ الزامات کو تسلیم کرتے ہیں یا مسترد۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سابقہ رجسٹرار نے جواب جمع کروا دیا ہے، اب مقدمہ کی کارروائی کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ آنے والے جوابات سے میرا کیس واضح ہو گیا، کونسل نے کوئی انکوائری نہیں کی تھی، انکوائری ہوتی تو گواہان پیش ہوتے، جرح کی اجازت دی جاتی، آرٹیکل 209 (6) کے تحت کونسل صدر کو بغیر تحقیقات مجھے ہٹانے کی سفارش نہیں کر سکتی تھی۔ کونسل کا شوکت صدیقی کو ہٹانے کا حکم کالعدم کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سمجھ لیں اگر آپ کے عائد الزامات درست نہیں تو کیا ہوگا؟۔ عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ کون سچ بول رہا ہے کون نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے ہوسکتا ہے کہ انکوائری نہ کی ہو، اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ فیکچوئل انکوائری ہی نہیں ہوئی تھی، اب سپریم کورٹ کا یہ پانچ رکنی بنچ کیسے فیصلہ دے سکتا ہے، ہم ایک سکے کو ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے، اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا، اس کے بغیر ہم کس طرف جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان کیسز کے ذریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، الزامات پبلکلی لگائے گئے، اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں انکوائری کے بعد تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟۔ ہم نے جن پر الزامات لگایا گیا ان کو فریق بنانے کا کہا، سچ کی کھوج کون لگائے گا اب، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمجھ لیں الزامات درست ہیں، لیکن ایک جج کیلئے مناسب تھا کہ ایسے بیان دیتے؟۔ آپ تقریر سے تو انکاری نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی جج کو ایسی تقریر کرنے کی اجازت ہے؟۔ حامد خان نے کہا کہ تقریر سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی اپیل کو شوکت عزیز صدیقی کیس کے ساتھ یکجا کر کے سنا جائے، اس کیس میں ایک ادارے پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ عافیہ شہر بانو کیس کا فیصلہ واپس ہونا چاہیے، عدالت شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دے، شوکت صدیقی کی اپیل منظور کرتے ہوئے معاملہ جوڈیشل کونسل کو بھیجا جاسکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ عافیہ شہر بانو کیس پر نظرثانی کرے، میری استدعا ہے کہ اس کیس کو بھی عافیہ شہر بانو کیس کے تناظر میں دیگر کیسز کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ سابق چیف جسٹس انورکاسی کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ مکمل حقائق نہیں دیکھے، میرے خیال میں کونسل یہ معاملہ دیکھ سکتی ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ تاریخ میں پہلا کیس ہے کہ بغیر انکوائری جج کوفارغ کیا گیا ہے، کسی شخص نے شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایت نہیں کی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جب ایک جج کی تقریر واضح ہے اور موجود ہے کیا پھر بھی انکوائری کی ضرورت ہے؟۔ شوکت عزیز صدیقی پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں انکوائری لازم ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف شکایت کسی نے کی یا رجسٹرار نے خود سب کچھ کونسل کو بھیجا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے تقریر میں کہا کیا تھا؟ جس پر وکیل حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی تقریر پڑھ کر سنائی۔ چیف جسٹس نے منگل کی سماعت کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے کو نوٹس دیا گیا، خواجہ حارث پیش ہوئے اور جوابات جمع کرائے، جوابات میں الزامات کا جواب دیا گیا، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اپنا جواب جمع کرایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری جوابات جمع کرانے کیلئے کتنا وقت درکار ہے، شہرت کیلئے تقریر کی گئی یا نہیں یہ الزام بھی ہے۔ حکمنامہ میں کہا گیا کہ شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کررہے ہیں۔ عدالت نے وکلاء  سے سوالات پر تحریری جوابات طلب کرلیے۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا انکوائری کے بغیر جج کو برطرف کیا جا سکتا ہے؟۔ کیا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے؟۔ کیا تقریر کا مس کنڈکٹ تسلیم کرلینے پر انکوائری کی ضرورت باقی تھی؟۔

ای پیپر-دی نیشن