بھارت میں پھیلتا اسلاموفوبیا اور رام مندر کا افتتاح
بھارت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انتہا پسندی بڑھتی جارہی ہے اور اسی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ہندوتوا کے شدت پسند نظریے کے حامی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا افتتاح کر کے تاریخ میں اپنا ایک اور ایسا کارنامہ درج کرا لیا ہے جس کی وجہ سے انھیں بھارت کو شدت پسند ملک بنانے میں کردار ادا کرنے والے شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس موقع پر ہندو پنڈت، ارکان اسمبلی، کھلاڑی اور شوبز شخصیات سمیت دیگر مہمان موجود تھے۔ رام مندر میں 161 فٹ لمبے گلابی ریت سے بنے مندر پر اپنے خطاب میں نریندر مودی نے کہا کہ آج میں بھگوان رام سے معافی مانگتا ہوں، ہماری محبت اور تپسیا میں کچھ کمی تھی جس کی وجہ سے رام مندر کی دوبارہ تعمیر میں اتنے برس لگ گئے، لیکن آج یہ خلا پورا ہوگیا۔ نریندر مودی نے رام مندر کے حصول کے لیے کئی دہائیوں تک قانونی جنگ لڑی۔
ایک طرف ایوانِ اقتدار میں بیٹھی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے شدت پسندانہ نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو ہوا دے رہی ہے تو دوسری جانب حزبِ مخالف کی سیاسی جماعتیں اس کے اس ایجنڈے کی مخالفت کررہی ہیں کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ اس طریقے سے بی جے پی ہندو انتہا پسندوں کی نظر میں زیادہ مقبول ہو جائے گی جس سے اسے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کا موقع مل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعت کانگریس سمیت دیگر جماعتوں نے رام مندر کے افتتاح کو مودی کو انتخابات میں ہندو ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ڈراما اور سازش قرار دیا ہے۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی۔
پاکستان نے ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی شدید مذمت کی ہے۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے 6 دسمبر 1992ء میں صدیوں پرانی مسجد کو شہید کردیا تھا، افسوسناک طور پر بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے نا صرف اس نفرت انگیزی میں ملوث ملزمان کو رہا کردیا بلکہ اس مقام پر ایک مندر تعمیر کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آج کی تقریب کا باعث بننے والی گزشتہ 31 سال کی پیشرفت بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو اکثریت پسندی کی نشاندہی کرتی ہے، یہ بھارتی مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی پسماندگی کے لیے جاری کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ بیان کے مطابق، شہید کی گئی مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر آنے والے وقتوں میں بھارت کے جمہوریت کے چہرے پر دھبا بنے گی، یہ بات قابل ذکر ہے کہ وارانسی کی گیانواپی مسجد اور متھورا کی عید گاہ مسجد سمیت کئی مسجدوں کو بھی بے حرمتی کے خطرے کا سامنا ہے۔
وزراتِ خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں ہندوتوا نظریے کی بڑھتی لہر مذہبی ہم آہنگی اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے، بھارت کی دو بڑی ریاستوں، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے وزرائے اعلیٰ نے بابری مسجد کی شہادت یا رام مندر کے افتتاح کو پاکستان کے ٹکڑوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے۔ عالمی برادری کو بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کا نوٹس لینا چاہیے، اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ بین الاقوامی اداروں کو بھارت میں اسلامی ثقافتی مقامات کو انتہا پسند گروہوں سے بچانے اور بھارت میں اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بیان میں پاکستانی حکومت نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات سمیت مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
بھارت میں 2014ء میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک مذہبی انتہا پسندی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس حوالے سے ہندو شدت پسندوں کی طرف سے کی جانے والی تمام کارروائیوں کو حکومت کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اسی لیے بھارت کے مختلف علاقوں میں بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسند بغیر کسی ڈر خوف کے ہر طرح کی کارروائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت میں اسلاموفوبیا تیزی سے پھیل رہا ہے اور خود حکومت اس سلسلے کی سرپرستی کررہی ہے۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں پچاس ممالک سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کی شرکت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بین الاقوامی برادری بھارت میں انتہا پسندی اور اسلاموفوبیا کے پھیلاؤ کی حمایت کررہی ہے۔ یہ بات بہت ہی افسوس ناک ہے کہ بین الاقوامی برادری ایسے معاملات کو بڑھاوا دے رہی ہے جن سے عالمی امن کو لاحق خطرات میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ مزید یہ کہ بھارت خطے میں جس طرح اپنے توسیع پسندانہ اور طاقت کے عدم توازن کے نظریے کو فروغ دے رہا ہے اس سے معاملات سدھار کی بجائے مزید بگاڑ کی طرف جائیں گے اور بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اس سلسلے میں جلتی پر تیل کا کام کرے گی۔ اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم عالمی و بین الاقوامی اداروں کو اس صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر یہ دیکھنا چاہیے کہ معاملات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے وہ کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
پاکستان اور چین کو مشترکہ دشمن سے ہمہ وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔