منشور اپنا اپنا
الیکشن کے دن بھی قریب آ گئے۔ 8فروری سیاسی جماعتوں کے مابین کانٹے دار مقابلے کا دن ہو گا۔ تنائو کی کیفیت میں زبردست مقابلے دیکھنے میں آئیں گے۔ الیکشن سے پہلے الیکشن کی گہماگہمی ہر بار دیکھنے میں آتی ہے لیکن اس بار ٹھنڈے موسم کی طرح سیاست بھی ٹھنڈی اور ٹھٹھری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ نہ پہلے والی وہ رونقیں اور سرگرمیاں، نا ہی کارنرز میٹنگز، اور بڑے بڑے جلسے، جلوس۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 136پارٹیاں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن ان میں صرف تین، چار ہی ہیں جنہیں آپ نیشنل سطح کی سیاسی جماعتیں کہہ سکتے ہیں۔ ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصا ف شامل ہیں۔
9مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف پس منظر میں چلی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن سے ’’بلے ‘‘کا نشان بھی نہیں ملا۔ پی ٹی آئی امیدوار اب آزاد حیثیت میں انتخاب لڑیں گے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا یہ آزاد امیدوار کتنی تعداد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جو کامیاب ہوئے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ پی ٹی آئی کا ہی ساتھ نبھائیں گے یا الیکشن جیتنے کے بعد کسی کنگ پارٹی کا حصہ بن جائیں گے۔ یہ بہت مشکل لمحات ہیں۔ پی ٹی آئی اپنے چیئرمین (عمران خان) کے بغیر نہایت بدترین سیاسی و قانونی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی کے بیشتر رہنما جیلوں میں ہیں یا جیل سے بچنے کیلئے زیر زمین چلے گئے ہیں، نجانے کہاں، کس حال میں اور کس مقام پر روپوش ہیں؟
بانی پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کیلئے نااہل بھی قرار دیدیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کافورم بھی نااہلی کے خلاف اپیل پر بانی پی ٹی آئی کی کوئی مدد نہیں کر سکا۔ بانی کے وکلاء مایوس و نامراد ہو کر لاہور ہائی کورٹ سے واپس لوٹے۔ مطلب یہ ہوا کہ بانی کیلئے الیکشن میں حصّہ لینے کے سب دروازے بند ہو چکے ہیں۔ خاں صاحب نے لاہور اور میانوالی سے قومی اسمبلی کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کئے تھے۔ مگر اُنکے پیپر مسترد کر دئیے گئے۔ ان کیلئے اب صرف ہائی کورٹ کا فورم ہی بچا تھا۔ لطیف کھوسہ نے بانی پی ٹی آئی کیلئے یہ فورم استعمال کیا۔ لیکن ستارے گردش میں ہوں تو کوئی فورم بھی کام نہیں آتا۔ نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی گردشِ حالات کی نذر ہیں۔ سائفر کیس میں جیل کی صعوبتیں اٹھا رہے ہیں۔ ’’بیل‘‘ کی کوئی بھی کوشش شاہ صاحب کیلئے کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ اپنے چیئرمین کی طرح انہوں نے بھی اپنے کاغذات نامزدگی قومی اسمبلی کی سیٹ کیلئے دو جگہوں سے داخل کئے لیکن مسترد کر دئیے گئے۔ کاغذات مسترد ہونے پر لاہور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ فیصلے کیخلاف اپیل کی۔ مگر جب قسمت ساتھ نہ دے رہی ہو تو پھر برے دن دیکھ کر نہیں آتے۔ شاہ محمود قریشی بھی بہت بُرے دنوں کا شکار ہیں۔
اس وقت پی ٹی آئی ہر طرح سے زیر عتاب ہے۔ صرف دو ہی نیشنل پارٹیاں میدان میں نظر آتی ہیں ، ایک پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دوسری پاکستان پیپلز پارٹی۔ باقی سب علاقائی جماعتیں ہیں۔ جو 8فروری کے الیکشن کا حصّہ بنیں گی۔ ایم کیو ایم، جی ڈی اے، جمعیت علمائے اسلام(ف)، جماعت اسلامی، اے این پی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کچھ علاقائی پارٹیاں ان جماعتوں میں شامل ہیں۔ پنجاب سے ق لیگ بھی انتخاب میں حصّہ لے رہی ہے۔ جس کے چیئرمین چودھری شجاعت حسین ہیں۔
کون جیتے گا اور کون ہارے گا ، وہ کون سی پارٹی ہو گی جو کنگ پارٹی کہلائے گی، 8مئی کا ڈھلتا سورج اس کا فیصلہ کر دیگا۔ انتخابی کمپین کے دوران ہر جماعت اپنا اپنا انتخابی منشور پیش کرتی ہے۔ ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے بتاتی ہے کہ اقتدار میں آئے تو اُنکی جماعت عوام کیلئے کیا کرے گی۔ معاشی ترقی کا پروگرام بھی اُن کے منشور کی خاص بات ہوتی ہے۔ یوٹیلٹی بلوں سمیت مہنگائی کم کرنے کی بات بھی کی جاتی ہے۔ غرض ہر اُس مسئلے کا حل ہر جماعت کے منشور میں شامل ہوتا ہے جو پوری قوم کو درپیش اور عرصۂ دراز سے حل طلب ہوتے ہیں۔
صرف پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کا 10نکاتی منشور پیش کر دیا ہے۔ منشورمیں بعض ایسے نکات بھی شامل ہیں جن پر شاید عمل درآمد ہی ممکن نہ ہو۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے اور حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے میں جکڑے اور انتہائی محدود وسائل رکھنے والے ملک میں اگر پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا ہے تو کیسے اپنے منشور پر عملدرآمد کر پائے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے تنخواہیں دگنی کرنے اور 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بل میں مکمل چھوٹ دینے کی بات کی ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ ایک غریب ملک میں 300یونٹ استعمال کرنے والے لاکھوں صارفین سے بل کی وصولی نہ کی جائے۔ بلاول کو وضاحت کرنی چاہیے کہ ایسا کیونکر ممکن ہو سکے گا۔ بلاول فی الوقت جو حل بتا رہے ہیں وہ سب ہوائی باتیں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آئے تو فضول کی 17وزارتیں ختم کر دیں گے۔ جس سے اربوں روپے کی بچت ہو گی۔ اشرافیہ کو اربوں روپے کی جو سبسڈی دی جاتی ہے وہ بھی ختم کر دی جائے گی۔ اس طرح جو بچت ہو گی وہ تنخواہیں دگنی کرنے کی مد میں خرچ کی جائے گی۔
کیا یہ سب ممکن ہے؟ بادی النظر میں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ صرف انتخابی منشور کی حد تک باتیں ہیں۔ شاید بلاول اور اُن کی معاشی ٹیم کے ذہن میں ہو کہ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف نے ابھی اپنا منشور پیش نہیں کیا۔ البتہ سینئر ن لیگی رہنما سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارٹی منشور کے چیدہ چیدہ کچھ نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان پر عمل ہو جائے تو پاکستان کے لوگوں کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔ اور قوم کی حالت بدل سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ نواز شریف نے پہلی بار 18 دسمبر کو حافظ آباد میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا جبکہ اُن سے پہلے مریم نواز بھی پنجاب کے مختلف تین اضلاع میں بھرپور جلسے کر چکی ہیں۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم بھی الیکشن کمپین چلائے ہوئے ہیں۔ بیرسٹر گوہر خان نے بھی ایک بیان میں الیکشن کمپین کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن میں اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ابھی بھی اس انتظار میں ہیں اور شدید خواہش بھی رکھتے ہیں کہ 8فروری کے عام انتخابات کسی طرح التواء کا شکار ہو جائیں۔تاہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حال ہی میں دی جانیوالے ایک آبزرویشن کے بعد عام انتخابات کیلئے 8فروری کی مقررہ تاریخ پتھر پر لکیر ہے۔ یعنی اب اس تاریخ میں کوئی ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی عام انتخابات کیلئے تمام ضروری اقدامات کر لیے ہیں۔ اگرچہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں ایرانی میزائل حملے کے بعد دونوں ممالک کے مابین حالات کشیدہ ہیں۔ پاکستان نے بھی اس ایرانی حملہ کے جواب میں ایرانی علاقے میں کارروائی کی ہے۔ تاہم وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کے علاوہ دیگر حکومتی اعلیٰ منصب داروں نے اس بارے سنجیدگی سے سوچ بچار کی ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بھی غیر ملکی دورہ مختصر کر کے اسلام آباد پہنچے اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں پاک ایران کشیدگی زیر بحث آئی۔ ایک رائے پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں برادر ہمسایہ ملکوں کے مابین کشیدگی کو بڑھنے سے روکا جائے۔ سفارتی محاذ پر بات چیت کے ذریعے کشیدگی کے بڑھتے ہوئے ماحول میں بہتری لائی جائے۔
بہرحال، حالات کچھ بھی ہوں، عام انتخابات کی راہ میں کسی بھی چیز کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ الیکشن کا التواء اندرونی اور بیرونی خطرات کو بڑھا دے گا۔ انتخابات کے نتیجے میں جس جماعت کی بھی حکومت آئے، وہ اچھے طریقے سے صورت حال کو مزید بہتر بنا سکتی ہے۔ لہٰذا نگران حکومت کو الیکشن ڈے کے موقع پر فول پروف سیکورٹی کے بہترین انتظامات کا سوچنا چاہیے۔ تاکہ پرامن ماحول میں انتخابات انعقاد پذیر ہو جائیں اور لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ پیش نہ آئے۔ اندرونی یا بیرونی حالات کیسے بھی ہوں، عام انتخابات نہیں روکے جا سکتے۔ نا انہیں رکنا چاہیے۔ سب کو اچھی طرح باور کر لینا چاہیے کہ انتخابات ہونے ہیں اور ہو کر ہی رہیں گے۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کے منشور کی بات ہے، وعدے تو وہ بہت کرتی ہیں لیکن جب اقتدار ملتا ہے تو پارٹی منشور بھول جاتی ہیں۔ جو اقتدار میں آ کر ایسا کرے اُس کا سخت محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اپنے منشور سے روگردانی نہ کرے۔