بحرانوں میں گھرا پاکستان اور عبدالعلیم خان کا پلان!!!!
پاکستان کو بحرانوں نے گھیر رکھا ہے، معاشی مشکلات ہیں، سیاسی عدم استحکام ہے، غربت اور بے روزگاری ہے، مہنگائی نے زندگی مشکل کر رکھی ہے، تعلیم اور صحت کی مناسب سہولیات نہیں ہیں، عام آدمی بہتر سفری سہولیات سے محروم ہے، زندگی گزارنے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ہر گھر میں مسائل ہیں، ادارے تنزلی کا شکار ہیں، ملک میں نفرت کی فضا ہے، عدم برداشت اور بداعتمادی جگہ جگہ ہے، لوگ اپنے آپ سے ہی ناخوش ہیں، ان حالات میں ہم عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی نعروں کے ساتھ میدان میں ہیں۔ ان تمام سیاسی جماعتوں میں انفرادی حیثیت میں بہت سے لوگ ہوں گے جو عوامی خدمت کے جذبے کو لے کر میدان سیاست میں اترے ہیں لیکن ان سب میں استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نمایاں ہیں۔ انہوں نے رواں برس ہونے والے عام انتخابات کے لیے سب سے پہلے جو انتخابی منشور دیا اور عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے جو وعدے کیے بعد میں ملک کی بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں نے اس کی پیروی کی، عبدالعلیم خان کے منشور کی نقل کے سوا دہائیوں سے سیاست کرنے والوں کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ عبدالعلیم خان نے فلاحی کاموں کو کبھی نہ تو سیاست کے ساتھ جوڑا ہے نہ فلاحی کاموں کے نام پر سیاست کی ہے، انہوں نے ہمیشہ وسائل سے محروم افراد کی اس محرومی کو دور کرنے کے لیے کام کو ذمہ داری سمجھ کر نبھایا ہے۔ وہ حکومت میں ہوں یا نہ ہوں فلاحی کاموں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور لوگوں کی مدد کے لیے عطیات جمع کرنے کے بجائے اپنی جیب سے یہ کام کرتے ہیں۔ ایسے افراد اگر حکومت میں ہوتے ہیں تو یقینی طور پر عام آدمی کی زندگی کو آسان کرنے کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر سوچ سکتے ہیں۔ ویسے تو سیاسی میدان میں قدم رکھنے والوں کو بنیادی طور پر اسی سوچ کے ساتھ سیاست کرنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے اکثریت ایسا نہیں کرتی لیکن جو لوگ یہ کرتے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ عبدالعلیم خان اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ملک بھر سے مختلف سیاسی شخصیات بھی آئی پی پی کا حصہ بن رہی ہیں۔ چونکہ ملک کو درپیش مسائل کا حل کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی اتحاد کی ضرورت ہے اور آئندہ عام انتخابات کے بعد استحکام پاکستان پارٹی ملکی مسائل کے حل میں بہتر کردار نبھا سکتی ہے، ان حالات میں عبدالعلیم خان میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ فلاحی کاموں کے تجربے، کاروباری تجربے اور سیاسی تجربے کی بنیاد پر ملک و قوم کی تعمیر میں اپنا کردار نبھاتے ہوئے جو کچھ اس ملک نے انہیں دیا ہے وہ واپس لوٹانے کی کوشش ضرور کریں گے۔
استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان این اے 117 اور پی پی 149 اور 209 سے میدان میں ہیں۔ عبدالعلیم خان کہتے ہیں موجودہ حالات میں ملک کو حقیقی معنوں میں بحرانوں کا سامنا ہے، یہ کسی ایک سیاسی پارٹی یا شخص کا نہیں بلکہ ملکی سالمیت اور وطن عزیز کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ لہٰذا ہم سب کو مل کر پائیدار حل کیلئے اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے، شاہدرہ کے لوگ میرے دل میں بستے ہیں جہاں ترقی اور خوشحالی میں جو
تاخیر ہوئی اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ شاہدرہ میں انتخابی مہم کا حصہ بننے اور محبت کرنیوالوں کا مقروض ہوں، یہ قرض تو نہیں چکا سکتا لیکن کوشش کروں گا کہ خدمت کروں اور لوگوں کی توقعات پر پورا اتروں۔ انتخابی مہم کے دوران حلقے میں جہاں بھی گیا ہوں لوگوں نے بہت پیار دیا ہے، یہ میرے اپنے لوگ ہیں، میری خوش قسمتی ہے کہ ان کی خدمت کے لیے میدان میں نکلا ہوں۔ اس انتخابی مہم کے دوران کاروباری، سیاسی و سماجی شخصیت میاں جنید ذوالفقار نے سونے کا تاج پہنایا ہے میں ان کا مشکور ہوں، شہریوں نے مجھے انتخابی نشان "عقاب" پیش کیا ہے یہ ان کی محبت ہے۔ میرا مقصد اور عزم اپنے لوگوں کی خدمت ہے۔ یہ میرا وعدہ ہے کہ حلقے کے لوگوں کی خدمت میں کوئی کمی نہیں رہنے دوں گا۔ اب شاہدرہ کے عوام کے ساتھ میرا دل دھڑکتا ہے، ہم سب دکھ سکھ کے ساتھی ہیں اور حلقہ این اے 117 کو اس قدر ترقی دینے کی کوشش کریں گے کہ لوگ اسے بھی لاہور شہر کا جدید علاقہ سمجھتے ہوئے یہاں رہائش پذیر ہونے کو ترجیح دیں گے۔ عبدالعلیم خان نے پی پی 145 سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار سمیع اللہ خان کے ہمراہ این اے 117 کے مختلف علاقوں مہر پورہ،25 نمبر سٹاپ، سوئی چوک، شوکت کالونی، بیگم کوٹ سمیت دیگر علاقوں میں بھی اپنا پیغام لے کر جا رہے ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی میں اچھے لوگ موجود ہیں اور یہ ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔ عبدالعلیم خان جیسا صدر اتحاد کی فضا کو قائم رکھتے ہوئے تعمیری سوچ کو فروغ دے سکتا ہے، غریبوں کے کام آ سکتا ہے، روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ عبدالعلیم خان پرامید ہیں کہ عام انتخابات میں ان کی جماعت کامیاب ہو گی اور آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے سیاست دان بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
عبدالعلیم خان کا دعوی ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی امیدواروں نے آزاد حیثیت سے جیتنے کے بعد استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے کا و عدہ کیا ہے بہت سے افراد ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں، کئی پرانے دوست ہیں ان سے تعلق رہا ہے فی الحال کسی کا نام بتانا مناسب نہیں لیکن وقت آنے پر سب دیکھ لیں گے کہ کون کس کے ساتھ ہے۔
آخر میں شہزاد نیر کا کلام
دکھ درد کو آنکھوں سے گذرنے نہیں دیتا
سیلاب تو دیتا ہے وہ ، جھرنے نہیں دیتا
میں اس کے دلِ سخت میں گھر کیسے کروں گا
جو اپنی گلی سے بھی گزرنے نہیں دیتا
رہتا تو ہے آنکھوں میں وہ آئینہ برابر
جب مجھ کو سنورنا ہو سنورنے نہیں دیتا
خود ٹوٹ کے بکھروں تو بکھر جاؤں بلا سے
میں درد کی دولت تو بکھرنے نہیں دیتا
دل اب بھی لپکتا ہے سرِ ساحلِ خواہش
وہ چاند سمندر کو اترنے نہیں دیتا
پھر مجھ کو اٹھا دیتا ہے دامن کی ہوا سے
مرنے کا ارادہ ہو تو مرنے نہیں دیتا
میں مائلِ انکار تو ہو جاتا ہوں دنیا !
دل مجھ کو محبت سے مکرنے نہیں دیتا
پیمانہء لبریز تو ہجراں کی عطا ہے
آ جائے تو وہ آنکھ بھی بھرنے نہیں دیتا
ہونٹوں کی تمنا تو بڑی بات ہے نیر
آنکھوں کی تمنا بھی وہ کرنے نہیں دیتا