• news

پیشہ صحافت اور پی آئی اے کا غم 

برس سے معاشی‘ اقتصادی بدحالی اور خطِ غربت سے گری قوم کو اپنے مفاد پرست حکمرانوں کی جانب سے انکے بنیادی حقوق کے تحفظ‘ درپیش مسائل کے فوری حل اور قومی خوشحالی کے بارے میں دی گئی طفل تسلیوں کا عمیق نظری سے جب بھی جائزہ لیتا ہوں تو اپنے حکمرانوں پر دکھ ہوتا ہی ہے مگر من حیث القوم اپنی اس قومی بدحالی پر ”غیروں“ کے پوچھے طنزیہ سوالات کا سچائی اور ایمانداری سے جواب دیتے یوئے بعض حالتوں میں اپنا احساس شرمندی چھپانا دشوار ہو جاتا ہے۔ انہی سطور میں وقتاً فوقتاً عرض کرتا رہتا ہوں کہ وطن عزیز سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور یہاں بیٹھ کر میری کالم نگاری کا بنیادی مقصد محض بعض سیاسی لیڈروں کی خوشنودی‘ پروٹوکول یا بااثر اور بااختیار بڑے لوگوں سے تعلقات استوار کرنا ہرگز نہیں کہ End of the dayآپ کو ندامت اور شرمندگی سے یقیناً دوچار ہونا پڑتا ہے۔ تاہم باوقار‘ بااصول اور حب الوطنی پر یقین رکھنے والے چھوٹے‘ بڑے ہر شخص سے بے لوث تعلقات قائم کرنا اپنا اعزاز تصور کرتا ہوں۔ صحافت اردو کی ہو یا انگریزی کی‘ دونوں صورتوں میں ایک انتہائی ذمہ دارانہ اور معزز پیشہ ہے جس میں محنت اور تحقیقاتی عمل کو مزید فروغ دینے کیلئے اضافی مطالعہ ناگزیر ہے۔ انگلستان میں پاکستانی سیاست چونکہ اب ایک ”سیاسی چسکے“ کا روپ دھار چکی ہے اس لئے میرے بعض بے روزگار‘ سیمی علیل‘ سیمی پنشنرز اور ریٹائرڈ زندگی گزارنے والے زیرتربیت کرم فرماﺅں نے اپنی مدد آپ کے تحت بطور ٹک ٹاکر‘ وی لاگر اور محض کیمرے کے سامنے بیٹھ کر صرف اور صرف پاکستانی سیاسی تجزیہ نگاری کو اپنا ”وقت ٹپانے“ کا مشغلہ بنا رکھا ہے۔ بعض محفلوں میں تو ایسے نوزائیدہ رپورٹر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے اپنے الیکٹرانک مائیک کو خصوصی Abbreviation کے ”لوگو“ سے سجا رکھا ہے جس کا مطلب صرف وہ خود ہی جانتے ہیں کہ روسٹ مرغی‘ فرائی مچھلی‘ پلاﺅ‘ مٹن تکوں اور کبابوں سے سجائی ایسی محفلوں میں کسی ”بونافائیڈ جرنلسٹ“ کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ پہلی مرتبہ ملنے والے نمائندوں سے تفصیلات پوچھتا پھرے۔ اب یہ الگ داستاں کہ انگلستان پہنچنے والے ہمارے بعض دوستوں نے ”جزوقتی اینکری“ اور الیکٹرانک صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے کا انتخاب کیوں کیا؟ اس پر پھر کبھی سہی۔ 
ضرورت آج اس امر کی ہے کہ بیرون ملک مقیم ہوتے ہوئے ہر محب وطن پاکستانی اپنے قومی اور ملکی مسائل کے موثر حل کیلئے اپنا ہر وہ ذریعہ استعمال کرے جس سے مسائل حکمرانوں تک پہنچ سکیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کا سب سے بہتر ذریعہ اپنے ”سفارتخانے“ اور قونصلیٹ ہیں جہاں مسائل سمیت شکایات کا اندراج کروایا جا سکتا ہے۔ اب یہ بتانے والی بات نہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کے ہوائی اڈوں پر اترنے کے دوران درپیش مسائل سمیت سب سے بڑا مسئلہ قومی ایئرلائن پی آئی اے کی بحالی کا ہے جس کے بارے میں یہاں گورے بھی اکثر سوال پوچھتے ہیں۔ 
اگلے روز میں ایک ایسی ہی نجی محفل میں مدعو تھا جہاں ماہرین تعلیم‘ ماہرین ماحولیات‘ تیسری دنیا کے بنیادی مسائل اور ہوا بازی کے جدید تقاضوں پر بحث کی جارہی تھی۔ گورے‘ گوریوں کی اس انٹیلیکچوئل محفل میں برٹش ایئرویز اور ورجن ایئرویز کے دنیا بھر میں اڑانیں بھرنے والے جدید طیاروں کے ذکر کے ساتھ ہی ہماری قومی ایئرلائن پی آئی اے کے شاندار ماضی کا تذکرہ بھی ہوا۔ بتایا گیا کہ 1970ءتک پی آئی اے کا شمار دنیا کی انتہائی قابل اعتماد‘ محفوظ اور شہرت یافتہ معیاری فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ یورپ اور مہذب دنیا کے بیشتر مسافر اسی ایئرلائن پر سفر کرنا اپنا اعزاز تصور کرتے تھے مگر پھر:
چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ہم ”باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس“ کو ایسی نظربد لگی کہ آج تک خسارے سے باہر نہیں نکل سکی۔ میں چونکہ شریک گفتگو تھا اس لئے اپنی قومی ایئرلائن کے بارے میں 2023ءکے پہلے ماہ کی مالی رپورٹ کے حوالہ سے میں نے جب یہ بتایا کہ پی آئی اے کو 6071 ارب سے زائد نقصان کی نشاندہی اور نگران وزیر نجکاری کے حالیہ دیئے اس مبینہ بیان کے بعد کہ پی آئی اے کو چلانے کیلئے اب پیسے نہیں کیونکہ ایئرلائن کو 90 ارب روپے کا خسارہ ہو چکا ہے جس میں بڑا مسئلہ ”گورننس“ کا ہے، تو دوست یہ سن کرحیران ہو گئے۔ اور پھر جب میں نے بتایا کہGreat people to fly کی نجکاری کاحتمی فیصلہ کیا جا چکا ہے تو ایک ماہر دوست کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ پہلے خسارے کے ساتھ ہی ہو جانا چاہیے تھا تاکہ پی آئی اے کا وقار متاثر نہ ہوتا۔ میں سوائے مسکرانے کے مزید کچھ بھی نہ کہہ سکا کہ میری اطلاع کے مطابق برطانیہ میں تو کئی ماہ قبل ”نئی کنٹری منیجر“ کی تعیناتی بھی ہو چکی ہے جنہیں ڈوبتی ایئرلائن کے باوجود مبینہ طور پر بھاری معاوضہ دیا جارہا ہے۔ اسی سلسلہ میں گزشتہ برس ماہ اکتوبر میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے بعد چند روز کیلئے جب لندن آئے تو ہائی کمیشن میں ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کے ہمراہ پاکستانی میڈیا سے بھی ان کا سوال وجواب کا سیشن ہوا جس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کے بڑھتے خسارے کے پیش نظر قومی ایئرلائن کو پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے۔ ایسا اگر نہیں کرتے تو ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ وزیراعظم کے اس فرمان کو بھی اب کئی ماہ ہونے کو ہیں جبکہ متوقع انتخابات میں اب صرف 13 دن باقی رہ گئے ہیں جس کے بعد نگران حکومت اقتدار نئی حکومت کے سپرد کرکے روانہ ہو جائیگی۔ مگر! ہم باکمال لوگوں کی لاجواب سروس کی بحالی کب اور کیسے ممکن ہوگی؟ وہ مشکل سوال ہے جس کا جواب یقیناً اب نئی حکومت کو ہی دینا ہے۔ آخر میں دو افسوسناک خبریں! لندن میں طویل عرصہ تک بطور پریس فوٹو گرافر خدمات سرانجام دینے والے شاہد احمد مالک حقیقی سے جا ملے جبکہ وقار زیدی شدید علیل ہیں۔ ان کی صحتیابی کے لیئے دعا کی درخواست ہے۔

ای پیپر-دی نیشن