عام انتخابات: امن و امان کے لیے فوج کی تعیناتی
عام انتخابات میں فوج تعینات کرنے کی سمری کی وفاقی کابینہ نے منظوری دیدی ہے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے 8 فروری کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں فوج کی کوئیک رسپانس فورس کے طور پر تعیناتی کی سمری وفاقی کابینہ کو بھجوائی گئی تھی۔ نگران وفاقی کابینہ کی جانب سے سمری منظور کیے جانے کے بعد عام انتخابات میں فوج کی بطور کوئیک رسپانس فورس تعیناتی کی جائے گی۔ الیکشن کمشن نے بھی انتخابات کے دوران فوج تعینات کرنے کے لیے خط لکھا تھا، جس میں 2 لاکھ 77 ہزار اہلکار طلب کیے گئے تھے، جن میں پاک فوج، رینجرز اور ایف سی کے اہلکار شامل ہیں۔ اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں جو تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اسے سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کی تعیناتی کے بغیر عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں۔
دوسری جانب، الیکشن کمشن کا کہنا ہے کہ ملک میں 8 فروری کو عام انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمشن نے تمام بلدیاتی محکموں کے ترقیاتی فنڈز منجمد کردیے ہیں۔ الیکشن کمشن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق بلدیاتی محکموں کے ترقیاتی فنڈز عام انتخابات کے نتائج کے اعلان تک منجمد کیے گئے ہیں۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکومتیں صرف سینی ٹیشن اور صفائی کے روزمرہ امور سر انجام دیں گی اور کسی بلدیاتی ترقیاتی سکیم کا نہ اعلان کیا جائے گا اور نہ ہی اس پر کام کیا جائے گا۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ مقامی حکومتیں اور کنٹونمنٹ بورڈز عام انتخابات کے نتائج تک ٹینڈرز بھی نہیں دیں گے۔ یہ پابندی نگران حکومتوں کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی لگا دی جانی چاہیے تھی تاکہ کوئی بھی سرکاری وسائل کا متنازع استعمال نہ کرسکتا۔ اس پابندی کے دیر سے لگنے کی وجہ سے نگران حکومتوں نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن پر ہر طرف سے اعتراضات ہورہے ہیں۔
ادھر، محکمہ داخلہ پنجاب نے پورے صوبے میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔ اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق دفعہ 144 کے تحت اسلحہ لے کر نکلنے پر مکمل پابندی ہوگی۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ہوائی فائرنگ پر بھی پابندی ہوگی اور خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی دفعہ 144 کے زمرے میں آئے گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، 8 فروری کو الیکشن میں سکیورٹی خطرات کی اطلاعات ہیں، اور دہشت گردی اور امیدواروں میں لڑائی جھگڑے کے امکانات بھی ہیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے دفعہ 144 کا نفاذ 12 فروری تک کیا گیا۔ نوٹیفیکیشن کا اجرا تو ہوگیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اس پر عمل درآمد کو کیسے یقینی بناتے ہیں کیونکہ عام طور پر ہمارے ہاں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے نوٹیفیکیشنز کو سیاسی کارکن خاطر میں نہیں لاتے اور کئی جگہ سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزش کی شکایات موصول ہوتی ہیں۔
عام انتخابات کے حوالے سے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری کردی گئی ہے۔ الیکشن کمشن کے مطابق، پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے 10، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 7، جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) (ف) کے 5، جماعت اسلامی کے 4، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے 3 اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2 امیدواروں کے نام حتمی فہرست میں شامل ہیں۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ انتخابی عمل کے مختلف مراحل طے ہوتے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انتخابات کے نہ ہونے کے بارے میں مخصوص گروہوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی وہ افواہیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں جن کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان جس صورتحال کا شکار ہے اس میں عام انتخابات کا انعقاد نہایت ضروری ہے کیونکہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ایسے ہی دیگر اداروں کی مدد کی ضرورت ہے اور ان سے میں کوئی بھی ادارہ اس بات پر آمادہ نہیں ہوگا کہ وہ کسی غیر منتخب اور غیر جمہوری حکومت کے ساتھ معاملات طے کرے۔ ویسے بھی ملک کو اس وقت اقتصادی مشکلات کے علاوہ شدید انتظامی اور سیاسی مسائل کا بھی سامنا ہے جنھیں حل کرنے کے لیے عام انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔
نگران وفاقی کابینہ نے عام انتخابات کے موقع پر امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے فوج کی تعیناتی کا جو فیصلہ کیا ہے یہ ایک درست اقدام ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی تیاریوں اور نگران حکومتوں کی طرف سے مہیا کی جانے والی معاونت سے یہ بات واضح ہوتی جاتی ہے کہ 8 فروری کو انتخابات کا انعقاد یقینی ہے۔ نگران حکومتیں اور سرکاری ادارے تو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنا کردار ٹھیک طریقے سے ادا کررہے ہیں، اب اس سے آگے کچھ ذمہ داریاں سیاسی قیادت کی ہیں جو اتنی ہی اہم اور ضروری ہیں جتنی اہمیت نگران حکومت اور سیاسی اداروں کی کاوشوں کی ہے، لہٰذا سیاسی قیادت انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کرے اور زیادہ سے زیادہ ٹرن آو¿ٹ کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔
علاوہ ازیں، تمام سٹیک ہولڈرز کی طرف سے یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ انتخابات شفاف طریقے سے ہوں۔ انتخابات کے شفاف انعقاد سے نہ صرف ملک میں جمہوری عمل آگے بڑھے گا بلکہ اس سے عام آدمی کو یہ احساس بھی ہوگا کہ ملکی سطح کی فیصلہ سازی میں وہ بھی کچھ کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک عام آدمی کو ریاست، جمہوریت اور جمہوری اداروں پر اعتماد نہیں ہوگا اس وقت تک ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کر پانا ممکن نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جس بھی جماعت یا گروہ کو عام انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنانے کے لیے مینڈیٹ ملے اسے چاہیے کہ حکومت کی تشکیل کے بعد عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے کیونکہ ملک اس وقت جس صورتحال کا شکار ہے اس میں عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا صاف سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ انھیں بند گلی میں دھکیلا جارہا ہے جس سے معاملات سدھرے کی بجائے بگاڑ کی طرف جائیں گے۔
کشمیریوں کا بھارتی یوم جمہوریہ
کے بائیکاٹ کا فیصلہ
بھارتی فورسز نے کشمیری عوام کو سخت پابندیوں میں جکڑنے کے باوجود انہیں سکیورٹی کے نام پر مختلف ہتھکنڈوں سے ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے تاکہ نام نہاد بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر انہیں اقوام عالم تک اپنی آواز پہنچانے سے روکا جاسکے۔ اس سلسلہ میں مقبوضہ وادی میں فورسز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جس نے گھر گھر تلاشی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کشمیری عوام ہر سال 26 فروری کو بھارتی یوم جمہوریہ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں جس کا مقصد بھارتی مظالم کی جانب عالمی توجہ مبذول کرانا ہوتا ہے کیونکہ بھارت کی مودی سرکار نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت سلب کرنے والے اپنے پانچ اگست 2019ءکے اقدام کے بعد کشمیریوں کا عرصہ حیات مزید تنگ کرنے کا پوری سفاکی کے ساتھ سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور وہ اپنی ان کارروائیوں کے خلاف کسی عالمی دباو¿ کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی۔ مودی سرکار نے بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار کر کے اسے عملاً ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا ہے چنانچہ وہ لوک سبھا کے ہر انتخاب کے موقع پر ہندوو¿ں کا ووٹ حاصل کرنے کا جتن کشمیریوں اور دوسری بھارتی اقلیتوں کو زندہ درگور کر کے کرتی ہے۔ دو روز قبل اسی مسلم ک±ش پالیسی کے تحت نریندر مودی نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا افتتاح کیا جس پر بھارت اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی جانب سے مودی سرکار کی مذمت کی جارہی ہے۔ اسی بنیاد پر مودی سرکار کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر کشمیریوں کے ممکنہ سخت احتجاج کا دھڑکا لگا ہوا ہے جس کی پیش بندی کے لیئے بھارتی فورسز نے کشمیریوں پر مظالم مزید بڑھا دیئے ہیں تاکہ ان کی عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں تک رسائی ناممکن بنائی جا سکے۔ بھارت کے لیئے ہندوتوا پر مبنی اپنے عزائم چھپانا اب بہرحال ناممکن ہو چکا ہے اور کل اپنے یوم جمہوریہ پر مودی سرکار کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت ردعمل کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
نمونیا سے ایک دن میں
مزید 12 بچے جاں بحق
رواں ماہ مجموعی طور پر پنجاب میں نمونیا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 24گھنٹوں کے دوران نمونیا سے مزید 12 بچے انتقال کر گئے جس کے بعد ر واں سال صوبے میں نمونیا سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 194ہو گئی۔کچھ عرصے سے پنجاب کے بڑے بڑے شہر سموگ کی لپیٹ میں آ گئے۔اس سے بڑوں اور بچوں میں گلے کی خرابی، سانس سمیت کئی قسم کی بیماریاں پھیل گئیں۔اس کے بعد سموگ میں دھند بھی شامل ہو گئی جس سے ایسی بیماریوں میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔ان سے ابھی نجات ملی نہیں تھی کہ شدید سردی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ صورتحال امراض میں مزید اضافہ کررہی ہے۔بچے پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں ان کی ایسے موسم میں جتنی بھی حفاظت کی جائے اتنی ہی کم سمجھی جاتی ہے۔ سردی میں شدت کے باعث سکولوں کی ٹائمنگ بھی تبدیل کی گئی ہے۔موسم سرما کی چھٹیوں میں اضافہ بھی کر دیا گیا تھا۔تازہ ترین رپورٹس کے مطابق پنجاب میں 24گھنٹوں کے دوران نمونیا کے 491کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ لاہور میں 230بچوں میں نمونیا کی تصدیق ہوئی۔ ادھر صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت ملک کے میدانی علاقوں میں شدید دھند کا راج برقرار ہے۔ اور سردی کی لہر بدستور جاری ہے۔لاہورمیں کم از کم درجہ حرارت 4سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ہسپتالوں میں عملے کی لاپرواہی کی وجہ سے بھی بچوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔حکومتی سطح پر ایسی نااہلی اور لاپرواہی ناقابل قبول ہونی چاہیے اور جو بھی اس کے ذمہ دار ہیں وہ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ سخت سردی کے باعث خصوصی طور پر معصوم بچے اس وبا کا شکار ہو رہے ہیں۔ انسانی جانوں کا تحفظ بہر صورت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہسپتالوں میں علاج معالجے کی ہر سہولت میسر ہونی چاہیے۔