• news

جمعرات‘ 13 رجب المرجب 1445ھ ‘ 25 جنوری 2024ء

وزیر اعلیٰ پنجاب کو پی سی بی کے ایگزیکٹو بورڈ کا نیا چیئرمین مقرر کر دیا گیا۔
 محسن نقوی صاحب وزیر اعلیٰ رہیں یانہ رہیں کم از کم نگران دور حکومت ختم ہونے کے بعد وہ دوسرے اہم عہدے پر تو ضرور برقرار رہیں گے۔ یہ وہ پوسٹ ہے جس کے لیے بہت سے دلوں میں آرزو کی کلیاں چٹکتی ہیں۔ امیدوں کے دیپ جلتے ہیں خواہشوں کے کنول کھلتے ہیں۔ مگر نصیب کسی ایک کی یاوری کرتا ہے۔ اب کے دیکھ لیں لوگ مصطفی رمدے اور سیٹھی کی چیئرمینی کے بارے میں سوچ رہے تھے مگر قرعہ فال محسن نقوی کے نام نکلا جس کی طرف کسی کی نظر تو کیا، خیال کا بھی گزر نہیں ہوا ہو گا کیونکہ و ہ اس وقت پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس حیثیت میں بھی کافی اچھے کام کر رہے ہیں۔ اب شاید اوپر والوں کی خواہش ہے کہ ان سے کرکٹ کی بہتری کے لیے بھی کام لیا جائے۔ یوں ایک انار سو بیمار والی بات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ نجانے کیوں ہمارے ہاں اختیار ایک شخص کو دے کر اسے امرت دھارا ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے دیگر افراد میں بھی اس سے بہتر کارکردگی دکھانے کی صلاحیت ہو مگر نجانے کیوں ہم محکمہ صحت کے لیے سب سے بیمار محکمہ تعلیم کے لیے چٹے ان پڑھ کا بندوبست کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اب معلوم نہیں محسن نقوی کو کرکٹ سے کوئی شد بد ہے یا نہیں۔ یہ تو وہی جانتے ہوں گے جنہوں نے ان کا تقرر کیا ہے یا پھر خود نقوی صاحب کو علم ہو گا....
٭٭٭٭٭
پیپلز پارٹی کا جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا دعویٰ
اب کے یہ شوشہ یوسف رضا گیلانی چھوڑ رہے ہیں تو اس میں کچھ وزن تو ہو گا۔ کیونکہ ان کا تعلق اس سرائیکی بیلٹ سے ہے اس لیے انہیں تخت ملتان بہت یاد آتا ہے۔ ورنہ آصف زرداری اور بلاول بھی کئی بار یہ شوشہ چھوڑ چکے ہیں۔ اور بھی کئی جماعتیں یہی باتیں کر کے سیاست کے میدان میں گرما گرمی پیدا کرتی رہتی ہیں۔ مگر کسی کو عملی اقدامات کی فرصت نہیں۔ اب گیلانی جی تو کہتے ہیں کہ پہلے نیا صوبہ بنے گا باقی کام پھر ہوں گے۔ اس طرح شاید وہ الیکشن جیتنے کی کوشش میں ہیں یا اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے چکر میں۔ رہی بات علیحدہ صوبہ بنانے کی تو خود پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں ایسا کیوں نہ کیا۔ گلگت بلتستان کو تو صوبہ بنا دیا جنوبی پنجاب کونسا دور تھا۔ گلگت بلتستان تو ایک متنازعہ علاقہ بھی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پورے پنجاب پر حکمرانی کا جو نشہ ہے وہ آدھے پنجاب کی حکمرانی میں کہاں ہو گا نئے صوبے سے تخت لاہور کے بعد تخت ملتان پر حکومت کرنے والے بہرحال ادھورے پنجاب یعنی آدھے پنجاب کے ہی حاکم کہلائیں گے۔ اگر یہ تقسیم ضروری ہے تو پھر تخت ہزارہ، تخت کراچی، تخت قلات کی بات کرنے والوں کو کون روک سکتا ہے ان کی راہ میں رکاوٹ کون ڈال سکتا ہے۔ کیا ان کا بھی یہ حق تسلیم کیا جائے گا۔یہ سارا زور تخت ملتان پر ہی کیوں لگ رہا ہے۔ ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔“ یہ سب باتیں صرف الیکشن پر ہی سیاستدانوں کو کیوں یاد آتی ہیں۔ پھر وہی اک خاموشی کی خاموشی چھا جاتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
سندھ میں گیس کا ایک اور بڑا ذخیرہ دریافت
خدا جانے یہ گیس جاتی کہاں ہے۔ گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ سندھ میں گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ایسی ہی خبر خیبر پی کے میں گیس کے بڑے ذخیرہ کی دریافت کے حوالے سے آئی تھی۔ یہ ملک اور عوام کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ مگر اس پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ ان دریافت ہونے والے ذخیروں سے گیس نکالی بھی جاتی ہے یا صرف دریافت کی حد تک خوشخبری عوام کو دی جاتی ہے۔ اگر گزشتہ چند سالوں سے دریافت ہونے والے ذخائر کی خوشخبریاں جمع کی جائیں تو اب تک ملک میں گیس کی قلت پر قابو پا لیا جانا چاہیے مگر ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ ایک ایٹمی طاقت کے عوام کو قسطوں میں یعنی صبح دوپہر اور شام کو معمولی مقدار میں گیس فراہم کی جا رہی ہے وہ بھی انتہائی مہنگے داموں۔ اوپر سے آئی ایم ایف کے دباﺅ پر گیس کی قیمت میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ نجانے کب رکے گا۔ اگر حکمران عوام کو سولر انرجی یونٹس سستے داموں مہیا کریں تو بجلی اور گیس کی کھپت میں کمی آ سکتی ہے۔ اگر ایٹمی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی جو نہایت سستی پڑتی ہے فراہم کی جائے تو ہر گھر روشن اور ہر گھر کا کچن گرم ہو سکتا ہے۔ کاش ہمارے دوست نما دشمنوں نے کالا باغ ڈیم کی راہ کھوٹی نہ کی ہوتی یا دریاﺅں نہروں پر چھوٹے بجلی پیدا کرنے والے یونٹس لگائے ہوتے تو تب بھی آج ہم گیس اور بجلی کے لیے ترس نہ رہے ہوتے مگر کیا کریں ہم قومی سطح پر سوچتے ہی نہیں....
٭٭٭٭٭
مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر پر بھارتی اداکارہ ششمیتا سین نے نریندر مودی کو بھارت کا سیکولر آئین یاد دلا دیا۔ 
اور بھی بہت سے سیکولر عناصر نے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں اسے مذہبی جنونیت قرار دیتے ہوئے بھارت کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کانگریس پارٹی والوں نے تو اپنے قائد راہول گاندھی کی قیادت میں احتجاجی دھرنا بھی دیا۔ مذہب کے نام پر اس تقریب کو بھارتی وزیر اعظم نے مذہب سے زیادہ ایک ثقافتی تقریب بنا دیا۔ پوری بھارتی فلم انڈسٹری والے کیا چھوٹے کیا بڑے سب شاید جنونی انتہا پسندوں کے ڈر سے اس تقریب میں موجود تھے۔ ورنہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی فلم کوئی سنیما والا نہیں لگا پائے گا۔ جو لگائے گا اسے بھارتی جنتا پارٹی کے جنونی آگ لگا دیں گے۔ دنیا بھر میں عقل سلیم رکھنے والوں نے مذہب کے نام پر بھارتی سماج میں اس تقسیم کو بھارت کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ بھارت کا آئین سیکولر ہے۔ اس کے باوجود وہاں ہندو انتہا پسند جنونی راج قائم ہے۔ مذہب کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ رام مندر کے افتتاح کے موقع پر بھی مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی ہوئی اور ایودھیا میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر پتھراﺅ کیا گیا۔ یوں دنیا میں بھارت جس سیکولر ازم کا دعویٰ کرتا پھرتا تھا اس جھوٹ کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا اور دنیا کو پتہ چل گیا کہ بھارت ایک ہندو ریاست ہے۔ سیکولر نہیں....
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن