عالمی عدالت کا فیصلہ، بلاول کی خواہش اور اسد قیصر کا غصہ !!!!
اسرائیل کے مظالم پر جنوبی افریقہ کی آواز پر اور کچھ نہیں تو کم از کم لوگوں تک یہ پیغام تو پہنچا ہے کہ فلسطین کے لوگوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ گوکہ جن ممالک نے اس طرف توجہ دینی ہے وہ اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ چاہتا ہو کہ فلسطین میں ظلم نہیں ہونا اور اسرائیل کی کیا جرات ہے کہ وہ فلسطینیوں کا قتل عام کرتا رہے، عالمی طاقتوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، وہ تہذیب کے نام نہاد علمبردار، انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار، آزادی اظہار رائے کے نام نہاد علمبردار سب کو سانپ سونگھ چکا ہے۔ کسی میں ہمت نہیں کہ وہ ظالم اسرائیل کے خلاف کھڑا ہو یا اسے روکنے کے لیے بات چیت کرے مہینے ہو گئے، بمباری ہو رہی ہے، گولیاں چل رہی ہیں، خون بہہ رہا ہے، بچوں کی لاشیں پڑی ہیں، معصوم بچے معذور ہو رہے ہیں، بزرگ طاقت نہیں رکھتے لیکن ان کی ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی، بہادر خواتین اسرائیلی افواج کا بہادری سے مقابلہ کر رہی ہیں، ذرہ برابر شعور رکھنے والے انسان کو بھی علم ہے کہ فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے لیکن اگر کوئی نہیں جانتا یا جاننا نہیں چاہتا تو وہ صرف اور صرف وہ ہیں جنہوں نے دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ حالات جہاں مغربی دنیا کے لیے باعث شرم ہیں وہاں امت مسلمہ کے لیے بھی باعث شرم ہیں، دنیا میں جتنے بھی مسلمان ممالک ہیں کیا انہیں فلسطین میں بہنے والا خون اور معصوم بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں، جو لوگ آج فلسطین میں سب کچھ دیکھ رہے ہیں یہ کل کیا جواب دیں گے۔ ان حالات میں اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک چیز تو تصدیق شدہ ہوئی کہ ظلم ہو رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے اپنے عبوری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کیے جانے کے جنوبی افریقہ کے عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہیں ، اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دے۔ عالمی عدالت انصاف کے سترہ رکنی پینل میں سے سولہ ججز موجود تھے اور صدر عالمی عدالت انصاف نے عبوری فیصلہ سنایا۔ عالمی عدالت انصاف نے عبوری فیصلے میں کہا کہ حماس حملے کے جواب میں اسرائیلی حملوں میں بہت جانی اور انفرااسٹرکچر کا نقصان ہوا ہے۔ عالمی ادارہ انصاف نے غزہ میں انسانی نقصان پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پرشہریوں کی اموات ہوئیں اور عدالت غزہ میں انسانی المیے کی حد سے آگاہ ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے قرار دیا کہ جنوبی افریقہ کے عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہیں اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی مقدمے میں فیصلہ دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔
عالمی عدالت کا یہ فیصلہ بے ضمیروں کے ضمیر کو جگانے کے لیے کافی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی عدالت کی طرف سے اس فیصلے کے بعد بھی مثبت اقدامات ہوتے ہیں یا نہیں، دہائیوں سے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے لیکن کسی کو انصاف کی بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی نہ ہی اسرائیل کو ظلم سے روکا گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری خواہش رکھتے ہیں کہ میاں نواز شریف ان سے مناظرہ کریں کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں انتخابات سے پہلے امیدواروں کے درمیان مباحثہ ہوتا ہے، تقاریر ہوتی ہیں، مناظرے ہوتے ہیں اس لیے بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ یہ بات تو طے ہے کہ میاں نواز شریف ایسا نہیں کریں گے اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مناظرہ کر نہیں سکتے اصل بات یہ ہے کہ اس کا فائدہ کوئی نہیں اور ویسے بہتر یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو یہ کام سندھ کی جامعات میں کرنا چاہیے وہ وہاں جائیں اور طالبعلموں کے سوالات کے جوابات دیں کیونکہ اگر وہ میاں نواز شریف سے جواب چاہتے ہیں تو انہیں خود بھی کسی کو سندھ پر طویل حکمرانی کا جواب دینا ہے۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی سندھ پر حکومت اور صوبے کی بدتر حالت پر کوئی جواب دے سکتی ہے۔ سو یہ بیانات کی روایت کو چھوڑ کر خدمت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کا مرکز میاں نواز شریف ہیں اور میاں نواز شریف مہنگائی کم کرنے کے وعدے کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کا بنیادی مسئلہ اشیاءخوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں اور میاں نواز شریف زندگی کی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں کمی کا وعدہ کر رہے ہیں۔
خبر یہ بھی ہے کہ اسد قیصر کارکنوں کے سوال پر غصہ کر گئے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کو کارکنوں نے کھری کھری سنائی ہیں۔ صوابی میں انتخابی جلسے کے دوران کارکنوں نے اسد قیصر کو آئینہ دکھایا تو وہ غصہ کر گئے اور جواب دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ جس کو دینا ہے دیں لیکن بات سلیقے سے کریں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد علاقے کے مسائل حل کرونگا۔ پی ٹی آئی رہنما کی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی پر ایک کارکن نے ’جھوٹ ہے جھوٹ ہے‘ کا نعرہ بھی لگایا۔
اب جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا جب پی ٹی آئی کا کوئی رہنما سلیقے سے بات کرنے کا درس دے تو اسے یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ گذشتہ ایک دہائی میں پی ٹی آئی نے کس کلچر کو فروغ دیا ہے، عزتیں اچھالنا، لعن طعن، گالی گلوچ اور کسی کا حیا نہ کرنے کی روایت پاکستان تحریک انصاف سے ہی جڑی ہے۔ اب لوگوں کی باتیں سنیں جواب دیں کہ دس سال صوبے میں حکومت کی ہے اس دوران کتنے وعدے کئے اور کتنے پورے کیے جائیں لوگوں کو جواب دیں۔ انتخابات میں ووٹ مظلوم بن کر ہمدردی حاصل کرنے کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر مانگیں اگر کچھ کیا ہے تو لوگوں کو بتائیں نہیں کر سکے تو بتائیں کہ عوام نے موقع دیا لیکن خدمت نہیں کر سکے۔ غصہ نہ کریں حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں سے بات کریں۔ یہ ووٹرز ہیں آپ کے غلام تو نہیں ہیں۔
آخر میں فیض احمد فیض کا کلام
مرے ہمدم، مرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو کہ ترے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی، ترے سینے کی جلن
میری دلجوئی، مرے پیار سے مِٹ جائے گی
گرمرا حرفِ تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا ا±جڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست!
روز و شب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے، شیریں
آبشاروں کے، بہاروں کے ، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناو¿ں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارضِ محبوب کا شفاف بلور
یک بیک باد احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گل چیں کے لیے جھکتی ہے خود شاخِ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی گاتا رہوں، گاتا رہوں تیری خاطر
گیت بنتا رہوں، بیٹھا رہوں تیری خاطر
یہ مرے گیت ترے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغم جراح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہمِ آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں، نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا
٭....٭....٭