انتخابات 1970: سیاسی برج الٹ گئے
آجکل پاکستان کے عوام 2024ء کے انتخابات کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں- نوجوان 1970ء کے انتخابات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان کے پہلے انتخابات تھے- جنرل ایوب خان کے خلاف زبردست عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل یحییٰ خان نے پاکستان پر مارشل لاء مسلط کر دیا اور عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک سال کے بعد 27 دسمبر 1970ء کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا- سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے کم و بیش ایک سال مل گیا- 1970ء پاکستان کی تاریخ میں عوامی ابھار کا سال تھا-
جنرل ایوب خان نے دس سال تک عوام کے سیاسی جمہوری حقوق کو دبائے رکھا تھا- خفیہ ایجنسیوں نے جنرل یحییٰ خان کو رپورٹ دی کہ کوئی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور طاقت کا توازن جنرل یحییٰ خان کے پاس رہے گا- ٹھوس شواہد کے مطابق جنرل یحییٰ خان نے اپنی پسند کی جماعتوں اور امیدواروں کی مالی سرپرستی کی مگر مشرقی اور مغربی پاکستان میں عوامی لہر نے آمر حکمران کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا- اسلامی سوشلزم، صوبائی خودمختاری، معاشی مسائل، روٹی کپڑا اور مکان، سرمایہ داری، جاگیرداری، نوکر شاہی، استحصال، آزادی صحافت، امریکی سامراج اور 22 خاندان انتخابی مہم کے اہم موضوعات تھے-
پی پی پی کے عوامی جلسوں میں سوشلزم آوے ای آوے۔ جہڑا واہوے اوہی کھاوے۔ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔ سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے۔ مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان۔ ساڈا بھٹو آوے ای آوے۔ بھٹو ساڈا شیر اے باقی ہیر پھیر اے۔ جیوے جیوے بھٹو جیوے۔ بھٹو آگیا میدان میں ہے جمالو کے نعرے لگائے جاتے - ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیا-
قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے لیڈر تھے جنہوں نے عوام کے حقوق کی بات کی ان کو زبان اور شناخت دی- پارٹی کے تین رنگ کے پرچم اور تلوار کے انتخابی نشان نے بھی انتخابات میں اہم کردار ادا کیا- الذوالفقار حضرت علی رضی اللہ کی تلوار کا نام تھا- شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ووٹروں نے مذہبی فریضہ سمجھ کر پی پی پی کو ووٹ دیئے - اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد سرمایہ دار اور جاگیر دار پی پی پی کے خلاف تھے- مزدور کسان محنت کش افراد پی پی پی کی طاقت تھے جن کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عوامی انقلابی خطابات سے جگا دیا تھا- حکمران اشرافیہ کو عوامی طاقت کا اندازہ ہی نہیں تھا -
ذرائع ابلاغ اور مذہبی جماعتیں پی پی پی کے خلاف تھیں- پارٹی کے جیالوں نے محلے کی سطح پر کارنر میٹنگز کرکے پارٹی کا پیغام ہر گھر تک پہنچایا- 1970ء کے انتخابات میں پی پی پی کے حامی غریب عوام ٹرانسپورٹ سیاسی مخالفین کی استعمال کرتے اور ووٹ کی پرچی پر ٹھپہ تلوار پر لگاتے- انتخابی نتائج نے سیاسی اور حکومتی حلقوں کو حیران اور ششدر کر دیا عوامی لہر نے بڑے بڑے سیاسی برج الٹ دیے- عوام نے برادریوں، عزیز داریوں، مذہبی لسانی اور علاقائی تعصبات کو مسترد کر دیا- روایتی سیاست دان قزلباش گیلانی نون شاہ جیونہ لغاری مزاری عبدا لستار خان نیازی نواب زادہ نصر اللہ خان محمد حسین چٹھہ فرزند اقبال جاوید اقبال چوہدری محمد حسین ایئر مارشل اصغر خان ایوب کھوڑو میاں طفیل محمد حسن محمود رفیق سہگل جی ایم سید انتخابات ہار گئے- لاہور کے دیہاتی علاقے سے پی پی پی کے امیدوار اللہ دتہ نے سائیکل پر انتخابی مہم چلا کر صرف 300 روپے خرچ کرکے صوبائی اسمبلی کی نشست جیت لی- (جو دیکھا جو سنا: علم و عرفاں پبلشرز اردو بازار لاہور)۔
طویل انتخابی مہم کے دوران غریب جیالوں نے بے مثال قربانیاں دیں- کئی جیالے بے روزگار ہوگئے- سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے ظلم وستم کا شکار ہوئے- سینکڑوں خواتین کو پی پی پی کی حمایت کی وجہ سے طلاق ہوگئی- مولویوں نے پی پی پی کے حامیوں کے جنازے پڑھنے سے انکار کر دیا- 313 مولویوں نے سوشلزم کی وجہ سے پی پی پی کے جیالوں کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کر دیا- انتخابی مہم کے دوران ذوالفقار علی بھٹو پر 8 قاتلانہ حملے ہوئے مگر وہ سیاسی میدان میں ڈٹے رہے-انہوں نے چار انتخابی حلقوں سے انتخاب لڑا اور 3 حلقوں میں کامیابی حاصل کر لی- ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں انتخاب جیت گئے- وقت کی قلت کی وجہ سے بھٹو ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ نہ کر سکے-پی پی پی نے مغربی پاکستان اور شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اکثریت حاصل کر لی -
1970ء کے انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا کہ کسی مقبول عوامی رہنما کو سیاست میں برداشت نہیں کیا جائے گا- کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اس سوال کا جواب 8 فروری کے انتخابی نتائج کے بعد مل سکے گا- 1970ء کے انتخابات کے بعد عوام کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا گیا- 2024ء کے انتخابات سے پہلے عوام کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے- اس مقصد کے لیے مختلف قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں- دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں نے پاپولر عوامی جماعتوں اور لیڈروں کی وجہ سے ہی ترقی کی- عوام کی رائے کو دبا کر یا اسے تبدیل کرکے آزادی اور قومی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔