ذوالفقار ِ علی ،نامِ مولا علی پر ، نشان حیدر
’’گْنبد کی صدا!‘‘
معزز قارئین! تاج محل کی سیر میں ہمارے گروپ میں ،میر جمیل اْلرحمن (مرحوم)، جناب اے۔ بی۔ ایس جعفری (مرحوم)، ماشاء اللہ حیات، سیّد ضمیر نفیس اور (اْن دِنوں) ’’پی۔ایف۔ یو۔ جے‘‘ کے صدر محمد افضل بٹ بھی شامل تھے۔ رام لعل نے ہمیں گھما پھرا کر۔’’جیومیٹری کے حساب سے‘‘ تاج محل کا کونا کونا دِکھایا اور گْنبد میں لے جا کر اْس نے اچانک ’’اللہ و اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا تو گْنبد سے بھی ’’اللہ!‘‘ کی گونج سْنائی دِی۔
رام لعل نے کہا کہ ’’آپ میں سے بھی کوئی نعرہ لگائے تو مَیں نے۔ ’’یاعلیؓ کا نعرہ لگایا، پھر گْنبد سے بھی ’’یاعلیؓ‘‘ کی گونج سْنائی دِی۔ اِس پر جناب اے۔ بی۔ ایس۔ جعفری صاحب نے مجھ سے پوچھا اثر چوہان صاحب! کیا آپ بھی شیعہ ہیں تو مَیں نے کہا کہ ’’مَیں تو ایک عام مسلمان ہْوں، لیکن بھارت کی سر زمین پر اِس سے بڑا نعرہ اور کون سا لگایا جاسکتا ہے؟‘‘۔ پاکستان کے غازیوں اور شہیدوں کو بھی ’’نشانِ حیدر‘‘ کے اعزاز سے نوازا جاتا ہے!‘‘۔
’’شیر میسور ٹیپو سلطان شہید! ‘‘
’’مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی نے 4 مئی 1999ء کو چیئرمین’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی حیثیت سے ’’ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں ’’شیر میسور‘‘ فتح علی خان ٹیپو سلطان شہید کے دو سو سالہ یوم شہادت پر عظیم اْلشان تقریب کا اہتمام کِیا تھا۔ تقریب میں خانوادہ ٹیپو سْلطان شہید کے میجر (ر) محمد ابراہیم نے ’’مردِ مومن ٹیپو سْلطان شہید‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب شرکاء میں تقسیم کی۔ کتاب کے ایک صفحے پر لکھا تھا کہ ’’حضرت ٹیپو سْلطان شہید کے مزار پر یہ شعر کندہ ہے‘‘ …
’’بہر تسخیرِ جہاں شْد، فتحِ حیدر آشکار!
لافتی اِلاّ علی، لاسَیف اِلاّذْوالفقار!‘‘
…O…
یعنی۔ ’’دْنیا کی فتح کے لئے فتح حیدر کا ظہور ہْوا۔ حضرت علیؓ سے بہتر کوئی جواں مرد نہیں اور اْن کی تلوار ذْوالفقار سے بہتر کوئی تلوارنہیں ہے ‘‘
’’ تحفت اْلمجاہدین !‘‘
معزز قارئین! حضرت سلطان فتح علی خان ٹیپو شہید نے اپنی افواج کو چاق و چوبند بنانے کے لئے ’’تحفۃ اْلمجاہدین‘‘ کے عنوان سے فارسی زبان میں ایک کتاب لکھی تھی، کئی سال پہلے موجودہ چیئرمین "P.E.M.R.A" پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ نے مجھے وہ کتاب تحفے میں دِی تھی۔ (پھر نہ جانے وہ کتاب کیسے گم ہوگئی)۔
مَیں نے اپنے ایک کالم میں سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی درخواست کی تھی کہ ’’اگر وہ کتاب کسی لائبریری سے مل جائے تو وہ یقینا پاکستان کی مسلح افواج کے لئے راہنما ثابت ہوسکتی ہے!‘‘۔
’’ٹیپو شہید۔ پاکستان کے ہیرو!‘‘
28 فروری 2019ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہْوئے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بھارت اور اقوام عالم کو ’’غیرت مند‘‘ پاکستانی قوم کا نئے سرے سے تعارف کراتے ہْوئے کہا تھا کہ ’’موت کے بجائے غلامی‘‘ کا انتخاب کرنے والے ہندوستان کے آخری مْغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بجائے، شیرمیسور ، سلطان فتح علی خان ٹیپو شہید ہمارے ہیرو ہیں!‘‘۔ اِس پر مَیں نے اپنے کئی کالموں کا حوالہ دیتے ہْوئے علاّمہ اقبال کا یہ شعر بھی درج کِیا تھا کہ…
آں شہیدانِ محبت را، اِمام!
آبرْوئے ہِند و چِیں و روم و شام!
ازنگاہِ خواجہ بدر و حْنین!
فَقرِ سْلطاں ، وارثِ جذبِ حْسین!
… O…
یعنی۔ ’’حضرت سْلطان ٹیپو شہید محبت کے شہیدوں کے امام ہیں۔ ہندوستان، چین، روم اور شام کی آبرو ہیں۔ سرکارِ دو عالم کی نگاہِ فیض سے اْن میں سْلطان کا ’’فقر‘‘ اور جذب ِ امام حْسین ہے!‘‘۔
… O…
’’یوم شہادتِ ٹیپو سلطان‘‘۔
6 مئی 2019ء کو میرے کالم کا عنوان تھا۔
’’یوم شادت ٹیپو سْلطان‘‘۔ حکومت /پارلیمنٹ ، غائب؟‘‘۔
معزز قارئین! کل (13 رجب کو) مولا علیؓ کا یوم ولادت منایا گیا تھا ، آپ کی ولادت کا جشن کئی دن تک منایا جاتا رہے گا۔ سوال ہے کہ ’’سابق وزیر اعظم نے جب یہ اعلان کِیا تھا کہ ’’شیر میسور سلطان فتح علی خان ٹیپو شہید پاکستان کے ہیرو ہیں تو اْن کے اِس ( اعلان / بیان) کا کیا ہْوا؟۔
٭…٭…٭