• news

عالمی عدالت انصاف کا اسرائیل کیخلاف  جنگی جرائم کا کیس چلانے کا فیصلہ

عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کا کیس نہ سننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کیخلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں جاری کئے گئے آ ئی سی جے کے عبوری حکم میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے بڑے پیمانے پر غزہ میں کارروائیاں کی ہیں جن میں وسیع پیمانے پر شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور اسی طرح وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ عدالت کو غزہ میں ہونیوالے مسلسل جانی نقصان پر سخت تشویش ہے۔ اسرائیل نے حماس کے حملے پر جوابی کارروائی شروع کی جو ہنوز جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے اسرائیل کی خلاف قراردادیں پیش کیں مگر اسرائیلی حملے نہیں رک سکے۔ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے‘ اسرائیلی حملوں سے غزہ کے انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کو نسل کشی کنونشن کے تحت کیس سننے کا اختیار حاصل ہے۔ عدالت نے یہ حکم جنوبی افریقہ کی درخواست پر صادر کیا اور یہ کیس نہ سننے کی اسرائیل کی درخواست مسترد کر دی۔ کیس کی سماعت کے دوران آئی سی جے کی جانب سے یہ ریمارکس بھی سامنے آئے کہ ہم غزہ میں انسانیت کو زمین بوس ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہم غزہ میں انسانی المیے کی حد سے آگاہ ہیں۔ غزہ کے لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں جبکہ غزہ میں صورتحال مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو ہدایت کی کہ وہ اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کو ملحوظ خاطر رکھے اور نسل کشی کی کارروائیاں فی الفور بند کر دے۔ اسرائیل غزہ پٹی کے شہریوں کو موجودہ نامساعد حالات اور بحران سے نکالنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ یہ حکم عالمی عدالت انصاف کے 13 ججوں نے صادر کیا جبکہ باقیماندہ دو ججوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ فلسطینی وزیر خارجہ نے آئی سی جے کے اس عبوری حکم کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت نے قانون کے مطابق اور انسانیت کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی آئی سی جے کے اس فیصلہ کی ستائش کرتے ہوئے اسے عملی جامہ پہنانے کا تقاضا کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے کیس کی سماعت کیلئے آئی سی جے نے اپنے دائرہ اختیار کو تسلیم کیا ہے۔ غزہ کے عوام کو درپیش مصائب کے خاتمہ کیلئے فوری اور غیرمشروط جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب اپنی جنگی جنونیت کی انتہاء کو پہنچنے اور شرف انسانیت کو روندنے والے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے غزہ پر اسرائیلی فورسز کے حملے جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں جن کے بقول اسرائیل اپنے دفاع میں یہ حملے کر رہا ہے۔ 
گزشتہ سال 7 اکتوبر کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم حماس نے غزہ میں سات دہائیوں سے جاری اسرائیلی مظالم کے ردعمل میں اسرائیل پر میزائل اور راکٹ برسائے تو اس پر اسرائیلی فورسز نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں فضائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ شروع کرکے وہاں کی روئے زمین پر موجود ہر چیز کو تہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ انسانیت کیخلاف اسرائیل کے انتقام کی آگ ابھی تک سرد نہیں ہوئی اور تقریباً چار ماہ کے دوران اس نے پوری غزہ پٹی کو عملاً ادھیڑ کر رکھ دیا ہے جہاں کوئی ہسپتال بچا ہے نہ مارکیٹیں‘ نہ تعلیمی ادارے اور نہ ہی فلسطینی عوام کی رہائش گاہیں۔ اسرائیلی فورسز نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انسانیت کو لرزانے والے بے رحمانہ حملوں کا آغاز کیا اور اسکی وحشت و بربریت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جن اجڑے پجڑے فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کے کیمپوں میں پناہ لی‘ ہسپتالوں میں طبی امداد کیلئے آئے انہیں بھی نہیں بخشا گیا اور گزشتہ روز تو اقوام متحدہ کے امدادی کیمپ میں خوراک حاصل کرنے کیلئے آنیوالے مظلوم انسانوں پر بھی اسرائیلی فورسز نے دھاوا بول دیا جس میں دو سو سے زائد بے بس انسان شہید ہوئے۔ 
اب تک کی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی بربریت کے ہاتھوں 30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 12 ہزار معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی باشندے بے بسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور خدا کے رحم و کرم پر پڑے ہیں۔ غزہ کے تمام شہری اور رہائشی علاقے عملاً کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ملبے کا ڈھیر بنی ہر عمارت قبرستان بن کر انسانی لاشوں کو اپنے اندر سمو چکی ہے۔ انسان ہی نہیں‘ چرند پرند تک اسرائیلی بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان مظالم پر انسانیت لہولہان ہے‘ آسمان بھی رو رہا ہے‘ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں‘ عالمی قیادتیں بالخصوص مسلم دنیا منافقت کے لبادے اوڑھے محض لیپا پوتی سے کام لے رہی ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ اور دوسری الحادی قوتیں کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں اور فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے اسے ہر قسم کا جنگی اسلحہ‘ گولہ بارود اور سازوسامان فراہم کر رہی ہیں۔ اقوام عالم کی جانب سے جنگ بندی کی کسی اپیل پر اسرائیل ٹس سے مس نہیں ہوا اور نہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اسرائیلی ہاتھ روکنے کیلئے کوئی تردد کیا۔ خوراک وصحت کے عالمی ادارے اور یو این سیکرٹری جنرل یہ کہہ کر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ضرور نظر آئے کہ غزہ میں بمباری سے ہی نہیں‘ بھوک اور ادویات کی قلت سے بھی انسان مر رہے ہیں۔ انہیں اقوام عالم کسی بڑے بحران کا شکار ہوتی بھی نظر آ رہی ہے مگر بے بس فلسطینیوں کی دست گیری کو کوئی نہیں آیا۔ یہ تو جنوبی افریقہ نے ہی ہمت دکھائی اور اسرائیل کیخلاف انسانی نسل کشی کا کیس عالمی عدالت انصاف میں دائر کیا جس کی حمایت کرنے کی بھی منافق عالمی قیادتوں کو توفیق نہیں ہوئی۔ اب عالمی عدالت انصاف نے نسل کشی کے عالمی کنونشن کی پاسداری کرتے ہوئے اسرائیل کیخلاف یہ کیس چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی فی الفور بند کرنے کا حکم دیا ہے تو اب کم از کم مسلم دنیا کی قیادتوں کو ہی ملّی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے ورنہ مسلم دنیا کو ایک ایک کرکے ختم کرنے کا الحادی قوتوں کا ایجنڈا ہی غالب آئیگا۔

ای پیپر-دی نیشن