اتوار ‘ 16 رجب المرجب 1445ھ ‘ 28 جنوری 2024ء
پاکستان مخالف بھارتی فلم فائٹر پر خلیجی ممالک نے پابندی لگا دی
بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ والی فلمیں تسلسل کے ساتھ بنائی جا رہی ہیں ان فلموں میں جھوٹی کہانیاں بھارتی فوج کی بہادری ک جھوٹ قصیدکھا کر بھارتی عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ یہ فلمیں دیکھ کر سادہ لوح بھارتی فلم بین تو سنیما ہال میں خوب تالیاں پیٹتے ہیں مگر ایسی فلموں کو گزشتہ برس عالمی فلمی میلوں میں منفی پراپیگنڈا فلمیں قرار دے کر ان کا بھانڈا بھی پھوڑا جا چکا ہے۔ مگر بھارت والے باز نہیں آتے۔ اب انہوں نے آپریشن بالا کوٹ کے حوالے سے جس میں اس کے دو طیارے تباہ ہوئے اور ان کا سورما ہواباز ابھی نندن گرفتار ہوایعنی جنگی قیدی بنا۔ اس پر بھارت کو دنیا بھر میں سبکی اٹھانی پڑی کیونکہ یہ مکمل طور پر ایک ناکام فلاپ شو تھا۔ پاکستانی شاہینوں نے جس طرح بروقت کارروائی کر کے بھارتی ہوا بازئوں کو دْھول چٹائی وہ ساری دنیا نے دیکھا مگر اب بھارت نے فلم فائٹر بنا کر اپنی شرمندگی مٹانے کی کوشش کی ہے اور اْلٹی گنگا بہاتے ہوئے جھوٹی کہانی میں اپنے ہواباز کو ہیرو بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب عرب ممالک نے پاکستان مخالف جھوٹا منفی پراپیگنڈا ہونے کی وجہ سے اس فلم کی اپنے سنیما گھروں میں نمائش پر پابندی لگا دی ہے۔ عرب امارات کے علاوہ سب نے سرکاری طور پر اعلان بھی کر دیا ہے۔
اس سے بھارتی فلمساز کو حکومت کو تکلیف بہت ہوئی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں ناں جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے امید ہے یہ بات بھارتی فلمسازوں کو سمجھ آ گئی ہو گی اوروہ آئندہ ایسی لغو فلمیں بنانے سے باز رہیں گے۔ لیکن کیا کریں ’’گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونا بھارت کی پرانی عادت ہے۔ وہ کیسے اسے چھوڑ سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
چائے میں نمک ملانے کی امریکی تجویز پر برطانوی چائے کے شوقین بھڑک گئے
ہمارے ہاں اکثر پرانے لوگ چائے کے کپ میں ایک آدھ چٹکی نمک ذائقہ کی وجہ سے ڈالتے ہیں اس کے فائدے یا نقصان سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ مگر اب ایک امریکی پروفیسر نے کہا ہے کہ چائے میں ایک چٹکی نمک ملانے سے اس کا فائدہ ہوتا ہے ذائقہ بہتر ہوتا ہے۔ اس پر برطانیہ والوں نے خوب اس امریکی پروفسیر کے لتے لیے ہیں۔ چائے برطانیہ کا قومی مشروب ہے انہوں نے اس تجویز کو مداخلت بے جا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کون ہوتا ہے ایسی تجویز دینے والا۔ اس پر امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ اس تجویز کا امریکی سرکاری پالیسی سے کوئی تعلق نہیں اس سے امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات میں کوئی خلل نہیں آنا چاہیے۔ اب تک اس حوالے سے ایک دوسرے پر گولہ باری جاری ہے۔ دیکھتے ہیں اس تجویز کے حامی اور مخالف آئندہ کیا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں تو چائے میں دودھ ملانا بھی پسند نہیں کیا جاتا اور بنا دودھ کے چائے نوش کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کرنا چائے کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ ذرا چائے میں دودھ کم ہوا گھر والے اور مہمان فوراً سو سو طرح کے تبصرے کرتے ہیں باتیں بناتے ہیں۔ برصغیر میں تو دودھ پتی کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے کہ دودھ میں پتی ڈال کر بنا پانی ڈالے چائے بنائی جائے جسے پسند بھی کیا جاتا ہے اور عزت افزائی تصور کیا جاتا ہے۔ رہی بات نمک کی تو یہ امریکہ جانے اور برطانیہ والے جانیں ہمیں اس جھگڑے میں کیا لینا دینا۔
٭٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن کا ذرائع آمدن کے سوال پر قہقہ
یہ جوہماری چڑیا ہے۔ یہ بہت سیاسی ہے ایسے ایسے سوالات پوچھتی ہے کہ اچھے بھلے انسان کو غصہ نہیں تو کم از کم ماتھے پر پسینہ ضرور آ جاتا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایک گفتگو یا انٹرویو میں جب انہوں نے سوال کیا کہ مولانا آپ کے پاس یہ سب مال اور جائیدادیں کہاں سے آئیں ہیں۔ ذرائع کیا ہیں آمدنی کے تو۔ مولانا نے نہایت خوبصورتی سے دانت پیستے ہوئے کھا جانے والی نظروں کے ساتھ ایک قہقہ لگایا اور کہا یہ اللہ کی رحمت ہے۔ وہ بے حد بے حساب دیتا ہے تو میں حساب کیوں رکھوں۔ ہاں البتہ میرے نام یا میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ جگنو محسن نے کہا کہ مجھے بھی کوئی وظیفہ یا طریقہ بتائیں کہ مجھے بھی بے حساب سب کچھ ملے تو مولانا خوبصورتی سے جواب ہی گول کر گئے۔ ہمارے سیاستدان ہیں ہی عجیب انکے پاس جو ہے وہ ہے عطیہ ہے عنایات ہیں۔ دوسرے کے پاس جو ہے وہ فراڈ ہے چوری کا ہے۔ ہے ناں عجب بات ورنہ سچ کہیں تو کوئی بھی دودھ سے دھلا نہیں ہے۔
سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اربوں کی جائیدادیں اگر رحمت ہیں تو رحمت غریبوں پر کیوں نہیں برستی جو بے چارے اس رحمت کے زیادہ مستحق ہیں۔ 24 کروڑ عوام پر بھوک ننگ ، غریبی بدحالی راج کرتی ہے اور ان پر راج کرنے والے یہ سب عیش کرتے پھرتے ہیں کیوں اس کا جواب صرف ان سیاستدانوں کے چہرے پر پھیلی زہریلی مسکراہٹ ہی ہوتی ہے…
٭٭٭٭٭