• news

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ(۱)

باب مدینۃ العلم، غواص بحر بلا، سوختہ آتش ولاء، مقتدائے اولیا ء و اصفیا، امیر المومنین ابو الحسن علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی ولادت باسعادت بعثت نبوی سے دس سال قبل ماہ رجب میں ہوئی ۔ آپؓ کی کنیت ابو تراب و ابو الحسن تھی جبکہ حید ر کرار آپ کا لقب تھا ۔ آپؓ نجیب الطرفین ہاشمی تھے۔آپؓ حضور نبی کریمﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ روایات کے مطابق، حضور نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کی پرورش کی ذمہ داری اٹھائی ۔ حضرت علیؓنے حضور نبی کریمﷺ کے دامن محبت و شفقت میں پرورش پانے کا اعزاز حاصل کیا ۔
آپؓنے  بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا ۔ جب اللہ تعالی کے حکم کے مطابق علانیہ تبلیغ کا آغاز ہوا تو مشکلات و مصائب کے باوجود اور انتہائی تکلیف دہ اور آزمائشی مرحلے میں بھی حضورﷺ کا ساتھ دیا۔ یہ حضرت علیؓ ہی تھے جنھیں ہجرت مدینہ کے وقت خاتم النبینﷺ نے حکم فرمایا، اے علی، میرے بستر پر لیٹ جائیں اور صبح امانتیں ان کے اصل مالکان تک پہنچا دینا۔ حضور نبی کریمﷺ نے آپؓ کو اپنا داماد بنایا اور اپنی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمۃ الز ہرہؓ کے ساتھ آپ کا نکاح کیا۔ آپؓ کو تمام اہم ترین غزوات میں شامل ہو نے کا اعزاز حاصل ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہونے والے معاہدے کے کاتب آپ ہی تھے۔ اکثر غزوات میں حضور نبی کریمﷺ نے پرچم اسلام آپ ہی کو عطا کیا۔ غزوہ خیبر آپ ﷺنے حضرت علیؓ کے ہاتھ میں پرچم دے کر فتح کی بشارت سنائی۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : اے مسلمانو، تم میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے مالک حضرت علیؓ ہیں ۔ 
حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کا ارشاد ہے کہ اگر مجھے حضرت علیؓ کی رفاقت حاصل نہ ہوتی تو امور سلطنت میں عمر برباد ہو جاتا۔ طریقت میںحضرت علیؓ بہت اونچی شان اور بلند ترین مقام کے مالک تھے ۔ اصول حقائق کے مشکلات کے حل پر آپؓ کو جو قدرت تھی اس کے بارے میں حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: ’اصول طریقت اورمصائب برداشت کر نے میں ہمارے پیر علی المرتضیؓ ہیں ــ‘۔

ای پیپر-دی نیشن