سیاسی پارٹیوں کے منشور اور ملکی و عوامی مسائل کا انبار
عام انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور عوام کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے جو منشور پیش کیا ہے اس کے اہم نکات میں پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں، مہنگائی، غربت اور قومی احتساب بیورو (نیب) کا خاتمہ، فی کس آمدن دو ہزار ڈالر سالانہ، عدالتی اصلاحات اور پارلیمنٹ کی بالادستی شامل ہیں۔ نون لیگ کی منشور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں پارٹی کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف کی موجودگی میں پارٹی منشور کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ منشورپر مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی کونسل اور عمل درآمد کونسل قائم کی جائے گی اور کونسل حکومتی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ مرتب کرے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کہا گیا ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کو ماحول دوست بنائیں گے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کویقینی بنایا جائے گا۔ عدالتی اصلاحات، آرٹیکل 62 اور 63 کواپنی اصل حالت میں بحال کیا جائے گا، عدالتی، قانونی، پنچایت سسٹم اور تنازعات کے تصفیے کا متبادل نظام ہوگا، عدالتی، قانونی اور انصاف کے نظام میں اصلاحات کی جائیں گی، یقینی بنایا جائے گا کہ بڑے اور مشکل مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندر اور چھوٹے مقدمات کا فیصلہ دو ماہ میں سنایا جائے، انسداد بدعنوانی کے اداروں اور ایجنسیوں کو مضبوط کیا جائے گا۔ کمرشل عدالتیں قائم کی جائیں گی، سمندر پار پاکستانیوں کی عدالتیں بہتر اور مضبوط بنائی جائیں گی، عدلیہ میں ڈیجیٹل نظام قائم کیا جائے گا۔معاشی اصلاحات،مالی سال 2025ء تک مہنگائی میں 10 فیصد کمی کی جائے گی، چار سال میں مہنگائی 4 سے 6 فیصد تک لائی جائے گی،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.5 فیصد تک کیا جائے گا، تین سال میں اقتصادی شرح نمو 6 فیصد سے زائد پر لائی جائے گی، افرادی قوت کی سالانہ ترسیلات زر کا ہدف 40 ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔
منشور میں شامل خارجہ پالیسی میں اقدامات میں بتایا گیا ہے کہ خطے کے امن اور معاشی ترقی کی بنیادوں پر بھارت سے تعلقات استوار کیے جائیں گے، ضروری ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنے غیر آئینی اقدام واپس لے۔ افغانستان کے ساتھ امن اور تجارت کے لیے رابطوں میں اضافے اور مؤثر سرحدی نظام کو بہتر بنائیں گے۔ اسرائیل کی طرف فلسطینیوں کی نسل کشی پر عالمی سطح پر آواز اٹھائیں گے۔ امریکا کے ساتھ عالمی معیشت، تجارت، انسداد دہشت گردی وغیرہ کے مسائل پر مل کر کام کریں گے۔ ملک بھر میں شمسی توانائی سے 10ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کریں گے۔ اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات سے نمٹنے کے لیے سخت سزائیں دی جائیں گی۔ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی بنائی جائے گی۔ مذہب کی جبری تبدیلی روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔
ادھر، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ’عوامی معاشی معاہدہ‘ کے نام سے انتخابی منشور جاری کر دیا ہے۔ پی پی کے انتخابی منشور کے مطابق، کم اجرت پر کام کرنے والوں کی حقیقی آمدن کو دوگنا کیا جائے گا۔ غریبوں، بے زمینوں اور محنت کشوں کو رہائشی مکان دیے جائیں گے اور بھوک مٹاؤ پروگرام شروع کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور میں بتایا گیا ہے کہ تمام سکول جانے والے بچوں کو مفت کھانا فراہم کریں گے۔ نوجوانوں کو یوتھ کارڈ جاری کیا جائے گا جس کے ذریعے تعلیم یافتہ نوجوان مرد و خواتین کو ایک سال تک وظیفہ دیا جائے گا۔ مزدورکارڈ کے ذریعے لوگ ناصرف اپنے بچوں کی سکول کی فیسیں ادا کر سکیں گے بلکہ اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے ہیلتھ انشورنس بھی حاصل کر سکیں گے جبکہ مزدور کارڈ کے ذریعے لوگ اولڈ ایج بینیفٹ بھی حاصل کر سکیں گے۔
پیپلز پارٹی کے منشور کے مطابق، ہاری کسان کارڈ بھی جاری کیا جائے گا جس کے ذریعے ڈی اے پی اور یوریا کھاد پر سبسڈیز دی جائیں گی اور فصلوں کا انشورنس ہو گا۔ اسی طرح، وسیلہ حق پروگرام کے ذریعے غریب خواتین کو چھوٹے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ وسیلہ تعلیم کے ذریعے ہر مستحق بچے کو مالی امداد فراہم کی جائے گی اور مالی امداد اس بات سے مشروط ہو گی کہ امداد حاصل کرنے والے بچے کی سکول میں حاضری کم از کم 70 فیصد ہو۔ پورے ملک میں پرائمری سطح کے علاج معالجے کی مفت سہولتیں اور دوائیں مہیا کریں گے۔ امراض قلب، جگر اور گردوں کے امراض کا مفت علاج کیا جائے گا جبکہ پاکستان کے ہر ضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔
یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ جن دونوں جماعتوں کی طرف سے منشور پیش کیے گئے ہیں وہ چار چار بار وفاقی سطح پر حکومت قائم کرچکی ہیں اور بالترتیب پنجاب اور سندھ میں ان کی کئی کئی بار حکومتیں بن چکی ہیں لیکن اس کے باوجود ملک اور صوبوں کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ اگر سیاسی قیادت واقعی ملک کے ساتھ مخلص ہے تو اسے محض دعوے کرنے کی بجائے کچھ ایسے اقدامات بھی کرنا ہوں گے جن سے اندازہ ہو کہ وہ معاملات کو درست سمت میں لے کر جارہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم پیمانہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہر جماعت کی سیاسی قیادت اپنی جماعت کے اندر جمہوریت لائے تاکہ کارکنوں کو اپنی بات کھل کر کہنے کا موقع مل سکے اور عوامی جذبات کی حقیقی ترجمانی ہوسکے۔ اسی طرح جماعتوں پر خاندانوں کو مسلط کرنے کی بجائے میرٹ کی پالیسی اپنائی جائے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں کیا جاتا تو پھر منشوروں میں جو دعوے کیے گئے ہیں وہ زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔