• news

پیر ‘  17   رجب المرجب   1445ھ ‘  29     جنوری   2024ء

تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور پیش کر دئیے 
اس وقت الیکشن سے قبل لگتا ہے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور کی لنڈے بازار والے کوٹوں اورجوتوں کی طرح  لوٹ سیل لگا رکھی ہے۔ جس جماعت کو دیکھو ایسے ایسے دعوے اور وعدے کر رہی ہے جو وہ خود بھی پورے نہیں کر سکتی مگر عوام کو بے وقوف بنانے میں کیا حرج ہے۔ سیاسی جماعتیں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ کام کر رہی ہیں۔ کیا خوب کہتے ہیں ’’خوف خدا شرم بنی یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں۔‘‘ لوگ بھی اب سیانے ہو چکے ہیں وہ یہ شیخ چلّی والے منشور پڑھ کر ہنستے ہیں بعدازاں یہ منشور والے رنگیں صفحات پرچون کی دکان پر مرچیں یا ریڑھیوں پر پکوڑے باندھنے کے کام آتے ہیں۔ اس وقت ملک میں جو مہنگائی کا دیو ناچ رہا ہے بجلی گیس کی قیمتیں سیاپا ڈال رہی ہیں۔ اس کی ذمہ دار یہی سب سیاسی جماعتیں ہیں جو آج ’’ستی ساوتری ‘‘ بن کر خود کو گنگا نہائی ثابت کر رہی ہیں۔ اگر یہ جماعتیں عوام دوست ہوتیں تو صرف ایک نکتہ پیش کرتیں کہ مہنگائی ، بے روزگاری اور یوٹیلٹی بلز میں کمی لائیں گے۔ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے وہ اب زندگی کی گاڑی کھینچنے سے تھک گئے ہیں اور سیاسی جماعتیں انہیں کاغذی منصوبوں سے بہلا رہی ہیں۔ مگر ’’نہ 9 من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ یہ سب جانتے ہیں۔
جبھی تو الف لیلیٰ والی کہانیوں کی طرز پر اپنا اپنا منشور پیش کر رہی ہیں کہ بعد میں کس نے پوچھنا ہے۔ کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم وہ ارادہ۔ یہ سب الیکشن میلے تک کی سوغاتیں ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
’’میری بوتل کہاں گئی‘‘ راحت فتح علی خان کا ملازم پر بدترین تشدد 
یاد رہے بڑے ستاروں کی نجی زندگیاں بھی عوام کی ملکیت تصور ہوتی ہیں۔ ان کے ہر اچھے بْرے فعل پر عوام کو رائے کا حق ہوتا ہے۔ اب گزشتہ روز راحت فتح علی خان کی اپنے ملازم پر بدترین تشدد کی جو ویڈیو جاری ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیسے والا کوئی بھی ہو جب مالک بنتا ہے تو اس کے اندر کی حیوانیت جاگ اْٹھتی ہے ورنہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملازم راحت فتح سے کافی دراز قد تھا مگر غلامی نوکری خوئے حمیت کو چھین لیتی ہے کیونکہ پیٹ کی خاطر بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس سارے ہنگامے کی وجہ بوتل تھی۔ یہ کونسی بوتل تھی صرف لفظ بوتل سے ہی سارا معاملہ سمجھ میں آ جاتا ہے۔باقی جس کا دل چاہے شہد کی بنا دے یا تیل ۔اب راحت فتح کہہ رہے ہیں کہ یہ دم والا پانی تھا۔ صرف اتنی سی بات پر مار پیٹ چہ معنی دارد۔ دم پھر بھی کرایا جا سکتا ہے۔ کیا  پیر صاحب چل بسے ہیں کہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ ہاں اگر یہ دوسری انگور کی بیٹی والی بوتل تھی جسے لال پری بھی کہتے ہیں تو معاملہ الگ بنتا ہے۔ کیونکہ یہ کافی نایاب ہوتی ہے اور غیر ملکی ہو تو مہنگی بھی اس کو رکھنے خریدنے اور پینے کا حق صرف راحت فتح جیسے پیسے والوں کو ہی ہوتا ہے۔ 
اب بھلا ایک ملازم کو اتنی جرأت کیسے ہوئی کہ اس نے یہ اِدھر اْدھر کر دی۔ کیا معلوم چکھ بھی لی ہو اور مالک کو پتہ چل گیا ہو کیونکہ یہ لال پری جہاں جاتی ہے اپنا رنگ و اثر ضرور دکھاتی ہے لیکن اسطرح تشدد کی مذمت کی جانی چاہیے ملازم بھی انسان ہوتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
ماہ رنگ بلوچ کا اصل رنگ کوئٹہ میں سامنے آ گیا 
اس وقت بھارت نے بیک وقت ایران اور افغانستان سے پاکستان کیخلاف گمراہ نوجوانوں کو اکسا کر جو گیم شروع کی ہے اس سازش سے آہستہ آہستہ پردہ اْٹھتا جا رہا ہے۔ ایک طرف پہلے منظور پیشن لایا اب ماہ رنگ کو لائے ہیں۔ ایک طرف سرمچاری بلوچستان میں تخریب کاری کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سول سوسائٹی کے نام نہاد دانشور اسلام آباد دھرنے میں جا کر ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف اپنی اپنی زبانیں کھول رہے تھے۔ اب دھرنے کا پول کھلا تو ماہ رنگ بلوچ نے اچانک بنا کسی سے مشورے سے واپسی کی راہ لی۔ اس پر شریک دھرنا بھی حیران تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جان سے پہلے البتہ وہ کھل کر ریاست کے مخالف عناصر کے حق میں بولیں۔ اب بلوچستان واپس پہنچ کر تو صاف لہجے میں وہ سرمچاریوں اور ان کے حواریوں کی حمایت میں شور کرنے لگی ہیں۔ اس ڈرامے کے اخراجات کون اْٹھا رہا ہے۔ یہ سب ازخود مفت میں تو نہیں ہو رہا۔ ایران اور افغانستان میں تخریب کاروں کے تربیتی کیمپ جدید امریکی اسلحہ بنا رہا ہے کہ نوجوانوں کو اْکسانے والا بھارت یہاں بڑے پیمانے پر پیسہ لگا رہا ہے۔ اب یہ وقت خود بلوچ سیاستدانوں اور سرداروں و نوابوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ اگر انہوں نے سیاسی سوجھ بوجھ اور تدبیر سے کام نہ لیا جذباتی نوجوانوں سے رابطہ نہ کیا تو ان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔ حکومت بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے ، بلوچ نوجوانوں کے لیے روزگار، نوکریوں ، کاروبار کے راستے کھول کر انہیں قومی دھارے میں لائے تاکہ بھارتی چال ناکام بنائی جا سکے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن