سپریم کورٹ پر تنقید، کوئی مقدمہ نہیں ہو گا، عدلیہ کا مذاق اڑانے سے ملک کا نقصان: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو بھیجے جانے والے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا۔ صحافیوں کو ہراساں کئے جانے پر سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم دیا کہ فیصلے پر تنقید کی بنا پر جاری نوٹسز واپس لئے جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر 2 میں لیا تھا، معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5 رکنی بینچ نے طے کیا کہ ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے، صحافیوں کی شکایت کو دیکھا ہی نہیں گیا تھا، سرکار کہتی کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہیں کرانا یا پھر داد رسی کرتی، بنیادی حقوق کو زندہ رکھیں یا پھر محض کاغذ پر تحریر سمجھیں۔ یہ کیس دفن ہونے سے تو بنیادی حقوق بھی دفن ہوگئے، میں تو اپنے ادارے پر پہلے بات کروں گا، کب تک ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے؟، مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے اپنی غلطی معلوم ہوگی۔ سابق چیف جسٹس پر تنقید نہیں کرنی، صرف موجودہ پر کرنی ہے، اٹارنی جنرل صاحب یہ شکایتیں سماعت کے لیے مقرر کیوں نہیں ہوتیں؟، دنیا بھر میں زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور ہم یہاں کہتے ہیں بس آگے بڑھو مٹی پاؤ۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ بس رپورٹ دے دی کہ کسی صحافی کیخلاف کارروائی نہیں چل رہی، ایف آئی اے نے پرانی کارروائیوں پر کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تنقید کی بنا پر صحافیوں کو جاری نوٹس فوری واپس لیں اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ گالی گلوچ الگ بات ہے، صرف تنقید کی بنا پر کارروائی نہ ہو۔ جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں ، آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں تو مجھے کوئی فکر نہیں، عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا، سپریم کورٹ پر تنقید ضرور کریں لیکن آئین میں بھی کچھ حدود ہیں، آپ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ نہیں نقصان کررہے ہیں، صحافی اگر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو کرتے رہیں، کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی بھی صحافی یا عام آدمی کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے، سپریم کورٹ کے بارے میں تنقید کرنے پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اگر آرٹیکل 19 کا خیال ہے تو کچھ خیال آرٹیکل 14 کا بھی کریں۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ تھمب نیل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گالی گلوچ غلط ہے لیکن تنقید پر ممانعت نہیں، اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو غلط ہے، مجھے تو گالی گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونی چاہئیں، ہم ان کو بھی حقوق دلائیں گے جو ہمارے سامنے نہیں ہیں، خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں۔