شفاف الیکشن کیلئے پرعزم، کوئی سیاسی جماعت معاشی بہتری کا ایجنڈا سامنے نہیں لائی: وزیراعظم
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ حکومت عام انتخابات کے آزادانہ اور شفاف انعقاد کیلئے پرعزم ہے،8 فروری کو انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ہی اس کے التوا کے حوالے سے تمام افواہیں دم توڑ جائیں گی۔ نئے شروع ہونے والے ٹیلی ویژن چینل (ایک نیوز) کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل یا بعد میں دھاندلی کی شکایات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے پارلیمان کو قانونی، انتظامی اور الیکشن کمیشن سے متعلق تمام خامیوں کو دور کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی اور عالمی میڈیا کے ساتھ ساتھ مبصرین بھی انتخابات کی مانیٹرنگ اور کوریج کریں گے۔ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جس حد تک ممکن ہو خطے کے معیارات کے مطابق انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں جعلی شناختی کارڈ کے ذریعے دھاندلی میں ملوث رہی ہیں اور وفات پا جانے والے افراد کے ووٹ بھی ڈالے جاتے رہے ہیں۔ ہر ایک کو اچھا ٹرن آؤٹ یقینی بنانے کے لئے اپنا آئینی حق استعمال کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ابھی تک کوئی سیاسی جماعت ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری کا کوئی ایجنڈا سامنے نہیں لے کر آئی۔ انہوں نے کہا کہ پارٹیوں کے تمام انتخابی منشور جن میں نوکریاں، پناہ گاہیں، سستی بجلی، فوڈ سکیورٹی اور دیگر شامل ہیں ان کا براہ راست تعلق مستحکم معیشت سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ریونیو جنریشن اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لئے منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سکینڈے نیوین ممالک میں 91 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب صرف 9 فیصد ہے، ٹیکس میں اضافہ حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ بھی بنائے گا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ نگران حکومت کو روزمرہ کے امور بشمول خارجہ پالیسی کے معاملات چلانے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ غیر قانونی، غیر ملکی شہریوں کی وطن واپسی کے بارے میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان نے صرف ان لوگوں کو ملک سے اپنے وطن بھیجا ہے جن کی کوئی شناخت اور ریکارڈ نہیں تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا کی مین سٹریم میڈیا کی طرح ریگولیشن کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت پر مینڈیٹ سے ہٹ کر کام کرنے پر تنقید درست نہیں کیونکہ اس کے تمام اقدامات قانونی اور کابینہ کی منظوری کے علاوہ وزارت قانون کی توثیق کے حامل ہیں۔
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+نمائندہ نوائے وقت) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کا 51واں اجلاس پیر کو اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اس وقت ملک میں استعمال ہونے والا 85 فیصد خام تیل اور 25 فیصد گیس درآمد کی جاتی ہے جس پر قیمتی زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے جو قومی خزانے پر بھاری بوجھ ہے۔ مزید برآں تیل وگیس کے موجودہ ذخائر میں تیزی سے کمی آر ہی ہے۔ نئے ذخائر کی تلاش کے حوالے سے پیٹرولیم ڈویژن نے پیٹرولیم پالیسی 2012 میں ضروری ترامیم پیش کیں۔ مشترکہ مفادات کونسل نے پیٹرولیم ڈویژن کی سفارش پر منظوری دی کہ پیٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیز کے پرانے یا موجودہ لائسنسز اور لیزز تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے لئے قابل استعمال ہوں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اس فیصلے سے گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کرنے والی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اس ترمیم کے تحت پٹرول گیس ایکسپلوریشن کمپنیوں کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اپنے موجودہ پرانے لائسنسز پر ہی تیل و گیس کے نئے ذخائر تلاش کرنے کے حوالے سے پیٹرولیم پالیسی 2012 کے تحت کام کر سکیں گی۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ٹیکس کا پیسہ عوام کا پیسہ ہے، لہذا تمام ترقیاتی منصوبوں کا محور عوامی فلاح و بہبود ہونا چاہئے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ مواصلاتی بنیادی ڈھانچے کی ترقی، پن بجلی و آبی ذخائر کی ترقی، زراعت، صنعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ افرادی قوت بالخصوص نوجوانوں کی ترقی کو ترقیاتی بجٹ میں خصوصی اہمیت دی جائے۔ اجلاس کو ملکی مجموعی اقتصادی صورتحال کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں 6 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں قومی ترقیاتی بجٹ مالی سال 2024-25 کیلئے ترجیحات و راہنما اصول منظوری کیلئے پیش کئے گئے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ نئے راہنما اصولوں کے مطابق قومی نوعیت کے ایسے ترقیاتی منصوبے جن پر 80 فیصد کام مکمل ہے انکی تکمیل کیلئے بجٹ میں رقم ترجیحی بنیادوں پر مختص کی جائے گی۔ اور ترقیاتی بجٹ میں قومی نوعیت کے نئے منصوبوں کیلئے صرف 10 فیصد رقم مختص کی جائے گی۔ قومی اقتصادی کونسل نے ہدایت کی کہ نئے منصوبوں کو ترقیاتی بجٹ میں شامل کرتے وقت یہ تعین کرلیا جائے کہ صرف ایسے نئے منصوبے ترقیاتی بجٹ کا حصہ ہوں جو ٹھوس ترقیاتی نتائج پر مبنی ہوں۔ اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ آئندہ مالی سال کے قومی ترقیاتی بجٹ میں صوبائی نوعیت کے منصوبوں کی شمولیت کی بجائے صرف نئے انضمام شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) اور 20 پسماندہ اضلاع کے ترقیاتی منصوبے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حصہ ہوں گے۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت دی کہ پسماندہ اضلاع کی فہرست مرتب کرنے کیلئے مقرر کردہ معیار کا ازسر نو جائزہ لے کر اسے بہتر کیا جائے تاکہ ملک کے تمام پسماندہ اضلاع کی اس فہرست میں شمولیت یقینی ہو۔