آئی ایم ایف کا سماجی پروگرامز کے اجرا پر زور
عالمی مالیاتی آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ بھی غریب عوام کے لیے سماجی پروگرام چلائے جائیں۔کمزور طبقے کیلئے محفوظ بجلی اور گیس ٹیرف سلیب جاری رہنا چاہیے۔ادارے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال ستمبر میں صحت اور تعلیم کے اخراجات کا ہدف پورا کر لیا گیا تاہم نگران حکومت محدود صلاحیت کے باعث دسمبر کا ہدف پورا نہیں کر سکی، منتخب حکومت مالی سال کے آخر تک سماجی تحفظ کے اخراجات جاری رکھے۔
نگران حکومت بڑی بڑی پالیسیاں نہیں بنا سکتی اگر اس کی طرف سے محدود صلاحیت کے باعث دسمبر کا ہدف پورا نہیں ہو سکا تو منتخب حکومت یہ کام بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتی ہے۔ہرحکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دے ،خصوصی طور پر پسماندہ طبقات اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے والوں کی دادرسی کی جا سکے۔منتخب حکومت کا تو مطمع نظر ہی یہ ہوتا ہے۔مگر عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے حکومتوں کے ہاتھ باندھ دیئے جاتے ہیں۔گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کی طرف سے ایک حوصلہ افزا رپورٹ سامنے آئی تھی۔ معیشت سے متعلق رپورٹ میں کہا گیاکہ زرمبادلہ کے ذخائر 4.5 سے بڑھ کر 8.2 ارب ڈالر ہو گئے ، معیشت کی سمت درست ہے۔ تمام اہداف حاصل کئے گئے ہیں زرعی شعبہ 5.1 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ ڈالر کی سمگلنگ کو سرحدوں پر کنٹرول کرلیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 2 فیصد اور بیروزگاری کی شرح 8 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ اس رپورٹ سے لگتا تھا کہ آئی ایم ایف عام آدمی کو ریلیف کے لیے اقدامات کرنا چاہتا ہے مگر اس رپورٹ کے ساتھ ہی پاکستان سے یہ یقین دہانی مانگ لی گئی کہ فروری کے وسط میں گیس مزید مہنگی جائے گی ٹیکسٹائل اور لیدر سیکٹر کے ٹیئر ون میں آنے والے پرچون فروشوں پر جی ایس ٹی کی 15 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا۔ چینی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ روپے فی کلو گرام بڑھائی جائیگی، مشینری کی درآمد پر ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ را مٹیریل کی درآمد پر ایڈوانس ٹیکس میں 0.5 فیصد اضافہ کیا جا ئے گا۔پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف کو یہ سارا کچھ کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی جس سے ہر پاکستانی پر مہنگائی کا ایک بار پھر پہاڑ ٹوٹے گا۔اسے بجٹ سے پہلے منی بجٹ قرار دیا جا رہا ہے۔اب آئی ایم ایف کی طرف سے بے نظیر سپورٹ کے علاوہ غریب کے لیے سماجی پروگرام شروع کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔متذکرہ بالا رپورٹ کی طرح اس کے پس پردہ نہ جانے آئی ایم ایف کی کیا سوچ ہے۔اس کے مطالبات پرتو سبسڈیز کا خاتمہ بھی کر دیا گیا ہے۔اگر عالمی مالیاتی ادارہ واقعی غربت کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کو کوئی ریلیف دینا چاہتا ہے تو ایسے بے جا مطالبات نہ کرے جس سے عام آدمی کا عرصہ حیات اور بھی تنگ ہو سکتا ہے۔آئندہ کی منتخب حکومت سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ بے نظیر انکم سکیم کو مزید توسیع دے گی اور عوام کی زندگی کو آسان بنانے والے دیگر پروگرامز بھی متعارف کرائے گی۔