• news

’’یہ معاملہ کوئی اور ہے‘‘

بے شک آئین پاکستان میں  شہری آزادیوں کو بھی تحفظ حاصل ہے‘ اظہار رائے کا حق بھی ملک کے ہر شہری کو دیا گیا ہے اور سیاسی جماعت کی تشکیل کا بھی شہریوں کو حق حاصل ہے مگر یہ حقوق پاکستان کی بقاء و سلامتی‘ اسلامی‘ سماجی اور اخلاقی اقدار کی تباہی اور ریاست کے مفادات سے کھلواڑ کرنے کی قیمت پر تو ہرگز ودیعت نہیں کئے گئے۔ ہم ریاست کو شہریوں کیلئے تعلیم‘ صحت‘ روزگار کی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کرنے پر مورد الزام ٹھہراتے ہیں کیونکہ یہ بنیادی ضروریات پوری کرنا آئین پاکستان کے تحت ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ کوئی شہری‘ گروہ یا سیاسی جماعت ریاست سے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی متقاضی ہوتی ہے تو اس کیلئے سڑکوں پرآکر احتجاج کرنے میں بھی وہ حق بجانب ہوگی۔ اسی طرح آئین کے تحت قائم سسٹم کی بقاء و تسلسل اور استحکام کیلئے تردد کرنا اور آواز اٹھانا بھی شہریوں کے بنیادی حقوق میں ہی شامل ہے اور یہ حق وہ کسی تنظیم یا سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم کے ذریعے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر سسٹم پر کسی قسم کی قدغن لگتی نظر آرہی ہو‘ آئین کے مطابق انتخابات کے انعقاد کا تقاضا پورا نہ ہو رہا ہو اور کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت شہری آزادیاں سلب کی جا رہی ہوں تو اس پر احتجاج یا تحریک چلانے کیلئے کسی سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ماضی میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریکیں انہی معاملات پر چلائی جاتی رہی ہیں جس کیلئے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم کے علاوہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر بھی تحریکیں چلاتی رہی ہیں۔ میں نے گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران پیشہ صحافت سے وابستہ ہونے کے ناطے ماضی کی متعدد حکومت مخالف تحریکوں کا مشاہدہ اور ان کی کوریج کی ہوئی ہے جن میں پی این اے‘ ایم آر ڈی‘ پاکستان عوامی اتحاد‘ کمبائنڈ اپوزیشن‘ پی ڈی اے‘ پی ڈی ایف‘ اے آر ڈی‘اے پی ڈی ایم اور ماضی قریب میں پی ڈی ایم کی تحریکیں بھی شامل ہیں۔ ان میں ایم آر ڈی کی تحریک سب سے طویل تھی جو ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران تقریباً آٹھ سال تک تسلسل کے ساتھ چلتی رہی۔ ان تحریکوں میں فوکس ملک میں سلب کردہ جمہوریت کی بحالی‘ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری پر ہی رہا۔ موخرالذکر دونوں نکات پر بھرپور انداز میں چلنے والی سول سوسائٹی اور وکلاء کی عدلیہ بحالی تحریک تھی جو معطل کردہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی زیرقیادت چلائی گئی اور سیاسی جماعتیں بھی اس تحریک کا حصہ بنتی رہیں۔ 
ان تمام تحاریک کے مقاصد اور ان کیخلاف حکومتی اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو سوائے عدلیہ بحالی تحریک کے‘ کوئی بھی تحریک مکمل طور پر اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی مگر بالخصوص ایم آر ڈی کی تحریک میں سیاسی کارکنوں اور قائدین کو جن حکومتی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا‘ اسکے عشرعشیر بھی تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو 2014ء کی لانگ مارچ اور دھرنا تحریک کے دوران حکومتی جبری اقدامات کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ ہی اپریل 2022ء سے اب تک اس پارٹی کی تحریک کو بزور روکنے کی کوئی کوشش ہوئی ہے۔ اسکے برعکس بعض ریاستی اداروں (جن کا نام لینا ضروری نہیں) کی جانب سے تحریک انصاف کو حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف اودھم مچانے والی اسکی تحریک سے 9 مئی 2023ء کے تشدد‘ تخریب کاری‘ گھیرائو جلائو کے واقعات تک باقاعدہ کمک اور تحفظ فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اس جماعت کے قائدین اور کارکنوں کو ریاستی اداروں کی عمارات پر باقاعدہ دھاوا بولنے کی بھی کھلی چھوٹ ملتی رہی۔ اسی محفوظ ماحول میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان خود ریاستی اداروں اور انکی قیادتوں کی بھد اڑاتے‘ گالم گلوچ کرتے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے اور منہ پر ہاتھ پھیر کر فلاں‘ فلاں‘ سمیت سب سے نمٹ لینے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ یہ ریاست کے اندر رہتے ہوئے ریاست سے کھلواڑ کرنے کی نادر مثال ہے جس کا ماضی کی کسی تحریک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عمران خان صاحب نے تو وزیراعظم کے منصب پر موجود ہوتے ہوئے بھی اقتدار کیلئے اپنے ’’سہولت کاروں‘‘ کو الیکٹرانک میڈیا پر قوم سے خطاب کے دوران  پہلے سے بھی زیادہ ’’خطرے ناک‘‘ ہونے کا ڈراوا دے دیا تھا۔ یہ محض ڈراوا نہیں تھا بلکہ اس ایجنڈے کی ایک جھلک تھی جو اس وقت بھی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر روبہ عمل ہے۔ گزشتہ سال 9 مئی کے واقعات بھی اسی ایجنڈے کا حصہ تھے اور اس سے قبل عمران خان صاحب خود اسی ایجنڈے کے تحت پاکستان اور افواج پاکستان کے تین حصوں میں تقسیم ہونے کی دھمکیاں دیتے اور اپنے مخالفین کے جہنمی ہونے کے دعوے کرتے رہے۔ اب ذرا سوچیئے کہ جب ملک میں عام انتخابات کے ذریعے قوم انتقال اقتدار کے جمہوری مرحلے کی جانب بڑھ رہی ہے اور جمہوریت کا سفر ماضی کی طرح کھوٹا کرنے کی تمام سازشیں ادارہ جاتی سطح پر ناکام بنائی جا چکی ہیں تو پی ٹی آئی کے بانی قائد کا اپنے پارٹی کارکنوں اور ٹکٹ ہولڈروں کو اتوار 28 مئی کو ملک بھر میں سڑکوں پر آکر ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکرا جانے کی کال دینے کا بھلا کیا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔ اور پھر ماضی کی تحریکوں بالخصوص ایم آر ڈی کی تحریک کے تناظر میں جائزہ لیجئے کہ اس کال پر پی ٹی آئی کے کتنے لوگ اور کتنے ٹکٹ ہولڈر سڑکوں پر آئے۔ حضور والا! ماضی کی تحریکوں کو تو آج کی شربے مہار سوشل میڈیا والی سہولت بھی حاصل نہیں تھی پھر بھی تحریک کے مقصد کیلئے ان کا جذبہ دیکھنے والا ہوتا تھا۔ وہ اپنے جسموں پر ہر ظلم و تشدد برداشت کرلیتے تھے۔ پھانسی کے پھندوں پر جھول جاتے تھے‘ کوڑوں اور شاہی قلعہ کی اذیت گاہوں میں ہر سزا بھگت لیتے تھے مگر ملک اور ریاستی اداروں کیخلاف اودھم مچانے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ آج اگر عمران خان اپنا پارٹی پلیٹ فارم ملک اور اداروں کیساتھ کھلواڑ کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور ان کا سوشل میڈیا سیل تمام اخلاقی سیاسی  اقدار کو بھی تہس نہس کر رہا ہے تو جان لیجئے کہ یہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت و انصاف کی عملداری کا  ایجنڈا ہرگز نہیں۔ ’’یہ معاملہ کوئی اور ہے‘‘۔

ای پیپر-دی نیشن