کوئی کام کرنے کو تیار نہیں، وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟ چیف جسٹس
اسلام آباد(آئی این پی+ این این آئی) سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے سے متعلق کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی، اٹارنی جنرل نے صحافیوں کے خلاف نوٹسز پر کارروائی موخر کرنے کی یقین دہانی کروا دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہوہ کون پراسرار ہے جو ملا چلا رہا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب! ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا، کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار ہیں۔ سپریم کورٹ میں صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ صحافیوں کیخلاف ایف آئی اے نوٹسز انتخابات کے بعد ٹیک اپ ہوں گے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل دئیے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون واضح ہے، جب تک ججزکمیٹی میں معاملہ نہ چلاجائے عدالت کوئی حکم جاری نہیں کرسکتی، مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنا کام کرنے کو تیارنہیں ہے، گزشتہ روز عدالت نے اسی وجہ سے کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا، پہلے عدالت میں درخواست لے کر کارروائی کی تھی، اب قانون کے مطابق سسٹم بن چکا ہے، کمیٹی کے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ اگرعدالت ایسے سوموٹو لے تو بھی صحافی اعتراض کریں گے، مزید کیس کیسے آگے چلائیں یہ بتادیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن ہمارے سامنے ہے نہ ہی کسی نوٹس کی کاپی، لسٹ ملی یا نہیں، جنہیں نوٹسز ملے ان کے تو جواب جمع کرائے جاسکتے تھے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون نہیں ہے، جو قانون ہے وہ صرف فوجداری کارروائی کیلئے ہے، یوٹیوب پرہتک عزت قانون لاگو ہوتا ہے،کوئی ریگولیٹری قانون نہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالت قانون کی تشریح کرسکتی ہے، جب قانون ہی نہیں توکیا کریں؟ عدالت صرف اسٹیک ہولڈرزکو ایک ساتھ بیٹھنے کی درخواست کرسکتی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں تنقید سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ آئین و قانون کے مطابق چلتے ہیں، سچ انسان کو آزاد کردیتا ہے، سچ تو ہرطرف سے ہی بالکل غائب ہوچکا ہے، کیا صحافی جھوٹ رپورٹ کرسکتا ہے؟ اس دوران اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ جو یقین دہانی کرائی تھی اس پر قائم ہوں، نوٹس واپس کرنیکا طریقہ کارہے اور جاری ہونے والے نوٹسز ابھی موجود ہیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے نوٹسز انتخابات کے بعد ٹیک اپ ہوں گے۔بعد ازاں صحافیوں کو ایف آئی اے انکوائری میں پیش ہونے کے لیے انتخابات کے بعد تک مہلت دیدی گئی۔