• news

بدھ‘ 19 رجب المرجب 1445ھ ‘ 31 جنوری 2024ء

 پرویز الٰہی کو گدھا گاڑی کا نشان الاٹ کرنے کیخلاف درخواست۔
یہ الیکشن کمشن والے بھی کمال کرتے ہیں۔ اب دیکھ لیں اگر چودھری صاحب نے مور کا نشان مانگا تھا تو دے دیتے کونسا اصل مور الیکشن کمشن نے اپنے پلے سے خرید کر دینا تھا۔ مور تو ایک بے ضرر سا خوبصورت پرندہ ہے۔ تھر کے علاقے میں اس کی حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے مگر پھر بھی تھر میں آج بھی مور ناچتے ہیں گاتے ہیں۔ سو اب اگر چودھری پرویز الٰہی کے آنگن میں مور ناچتا تو کیا ہوتا۔ ان کی ریلیوں میں  مور شرکائے ریلی کا دل بہلاتے ، کئی منچلے ان کی دْم کے رنگین پَر کھینچ کر نکال کر البتہ ضرور لے جا سکتے تھے مگر یہ آسان نہیں تھا۔ بہرحال الیکشن کمشن نے نجانے کیوں انہیں گدھا گاڑی کا نشان الاٹ کر دیا بھلا مور کا گدھا گاڑی سے کیا موازنہ۔ اس سے بہتر تھا تانگے کا نشان دے دیتے۔ اس پر شاید چودھری صاحب شور نہ کرتے کیوں کہ تانگہ ایک عرصہ سے ہماری سیاست میں موجود ہے۔ ویسے بھی یہ ماضی میں شرفا کی سواری کے کام آتا تھا۔ کئی شوقین حضرات نے آج بھی تانگے رکھے ہوئے ہیں۔ چھوٹی پارٹیوں کو طنز سے تانگہ پارٹی کہا جانے کی روایت عام ہے۔ ق لیگ کا اپنا نشان بائیسکل ہے جو غریبوں کی سواری تھی۔ اب کہیں اکا دکا نظر آتا ہے۔ وہ چودھری شجاعت کے پاس ہے تو پرویز الٰہی کو بچوں کی کھلونا سائیکل کا نشان ہی دے دیا جاتا تو کیا ہوتا۔ شاید اس کے خلاف چودھری جی عدالت میں درخواست نہ دیتے اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں الیکشن میں۔ لوگوں کو انتخابی نشان ذہن نشین کرانے میں بھی تو وقت لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭
کوہستان میں خواتین کے الیکشن مہم چلانے پر پابندی۔
اس دور میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض شدت پسند اپنے علاقوں میں خواتین کو ان کے حقوق دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔ رسم و رواج کے نام پر ان کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ووٹ ڈالنا ایک قومی فریضہ ہے اس طرح ہم اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے و وٹ ڈالتے ہیں۔ پاکستان کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود عملی زندگی میں ان کا عمل دخل نہایت کم ہے۔ صرف گھریلو کام کاج، اولاد کی پرورش، کھیتی باڑی اور باہمی خاندانی مسائل میں الجھنے کے علاوہ انہیں بعض علاقوں میں باہر نکل کر آگے بڑھنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ کوہستان میں پہلے بھی ایسی شکایات ملی تھیں اب بھی ہیں کہ وہاں عورتوں کو الیکشن مہم سے مکمل لاتعلق رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیا ہمارا آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی خودساختہ گروہ ریاست کے اندر من مانی کرتے ہوئے احکامات جاری کرے۔ اب یا تو سختی سے ان سے نمٹا جائے یا ان علاقوں میں الیکشن کالعدم قرار دئیے جائیں جہاں 30 فیصد سے کم خواتین کے ووٹ کاسٹ ہوئے ہوں یا انہیں ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہو۔
 سچ تو یہ ہے کہ ان علاقوں کے پدرسری معاشرے کے عادی لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر پڑھی لکھی باشعور عورتیں آگے آئیں تو علاقے میں تعلیم و ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں جو یہ لوگ نہیں چاہتے۔ جبھی تو کبھی تعلیمی اداروں کبھی زنانہ ہسپتالوں میں بھی عورتوں کے کام کاروبار اور نوکریوں کیخلاف یہ مورچہ زن ہوتے ہیں، حملے کرتے ہیں۔ اب الیکشن مہم اور ووٹ ڈالنے کے عمل میں رکاوٹ ڈال کر نجانے کونسی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
جوتا لگنے کے بعد بھی حمزہ شہباز کی الیکشن مہم اور ریلیاں جاری۔
 جن لوگوں کا خیال تھا کہ حمزہ شہباز اس ناگہانی  حملے کے بعد اپنی الیکشن ریلیاں روک دیں گے یہ ان کی غلط فہمی ثابت ہوئی۔ انہوں نے اس واقعہ کے بعد بھی اپنی مہم جاری رکھی اور گزشتہ روز بھی ریلی نکالی۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ جوتا پھینکنے والا کارکنوں کے ہتھے چڑھنے کے بعد بھی زندہ سلامت ہے۔ اگر کوئی شخص کھلاڑیوں کی ریلی میں ایسی حرکت کرتا تو اس کے بعد اس کا محفوظ رہنا مشکل تھا۔ سیاسی میدان میں جوتے کا استعمال جب سے فروغ پایا ہے اس کے مضر اثرات اب ہمارے سامنے ہیں۔ اب اختلاف رائے برداشت نہیں ہوتا اور ترنت ہاتھ جوتے کی طرف جاتا ہے۔ اس معاملے میں مسلم لیگ نون پر زیادہ "نظرِ کرم" ہوئی ہے۔ 
پہلے میاں نواز شریف کو نشانہ بنایا گیا اب حمزہ شہباز کو۔ کیا ایسا کرنے والے جوابی ردعمل سے بے نیاز ہوتے ہیں یا وہ مست ملنگ ہوتے ہیں؟۔ انہیں جو سکھایا جاتا ہے وہ کر گزرتے ہیں کیونکہ عقل سلیم رکھنے والا کبھی اجتماع میں اپنے سلیم شاہی جوتے کے استعمال کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جوتے کھونے کے علاوہ ہڈی پسلی ایک ہونے کا احتمال اس کام میں زیادہ ہوتا ہے۔ اب یہ نوجوان پولیس کی حراست میں ہے۔ کارکنوں نے اسے ٹھکائی کے بعد پولیس کے سپرد کر دیا ہے۔ شاید اب پولیس تفتیش کرے گی کہ اس نے ایسا کیوں کیا وہ ہوش و خرد سے بیگانہ تو نہیں۔ آخری بات یہ کہ جوتا آیا کہاں سے کس نے دیا ورنہ مہنگائی کے دور میں کوئی بھی اپنا معمولی سا جوتا گنوانے کا نہیں سوچ سکتا۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن