سائفر پر سیاست۔ اب بھگتیں
سائفر کیس میں پی ٹی آئی قائد عمران خان اور نائب قائد مخدوم شاہ محمود قریشی کو ملنے والی دس دس سال قید کی سزائوں پر آپ چاہے جو مرضی پراپیگنڈہ کرلیں اور اس پر چاہے جتنی مرضی بلیم گیم کی سیاست کرلیں‘ اس فیصلے کی بنیاد پر بہرحال ثابت ہو چکا ہے کہ عمران خان نے ملکی اور قومی مفادات بطور وزیراعظم افشا نہ کرنے کی اپنے آئینی حلف کی خلاف ورزی کی اور مخدوم شاہ محمود قریشی بطور وزیر خارجہ عمران خان کے سائفر کو لہرا کر پبلک کرنے کے جرم میں باضابطہ طور پر شریک جرم قرار پائے ہیں اور مستوجب سزا ٹھہرے ہیں۔ سیاست اپنی جگہ مگر پی ٹی آئی کے قائدین‘ عہدیداروں اور عمران خان کے وکلاء اور عزیز و اقارب کو بھی عمران خان سے سرزد ہونیوالے اس جرم کی سنگینی کا ادراک تھا چنانچہ عمران خان کی بہن علیمہ خان نے دو ماہ پہلے ہی پراپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ سائفر کیس میں عمران خان کو عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے۔
چاہے انہوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر پراپیگنڈے کا آغاز کیا اور پھر پی ٹی آئی کے سابق عبوری چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے بھی شدومد کے ساتھ اس پراپیگنڈہ کو آگے بڑھایا جو گزشتہ روز بھی جج ابوالحسنات کی جانب سے فیصلہ صادر ہونے سے پہلے میڈیا کے روبرو یہی چیخ و پکار کر رہے تھے کہ عمران خان کو سائفر کیس میں عمر قید کی سزا ملنے والی ہے۔ اسکے باوجود اس کیس پر بلیم گیم والی سیاست نہیں چل سکتی کیونکہ ٹھوس گواہیوں اور مصدقہ دستاویز و مواد کی بنیاد پرثابت ہو چکا ہے کہ عمران خان نے نہ صرف اپنے حلف بلکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی بھی خلاف ورزی کی اور مزید جرم یہ کیا کہ انہوں نے سائفر کو سرے سے غائب ہی کر دیا جو سیدھا سیدھا چوری اور سینہ زوری کا کیس ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان نے سیاست میں اودھم مچانے اور ریاستی اداروں کو رگیدتے ہوئے اپنی سیاست چمکانے کا راستہ اختیار کیا جو درحقیقت ملکی اور قومی مفادات کو بٹہ لگانے والا راستہ تھا۔ دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ انہیں اقتدار میں لائے جانے والے انداز سے ان کا سیاسی تشخص ’’لاڈلے‘‘ والا بن گیا جبکہ عمران خان کے ذہن میں بھی یہی زعم درآیا کہ انکی ملکی اور قومی مفادات سے بھی اوپر کی کوئی حیثیت بن گئی ہے۔ انکے ساتھ مزید المیہ یہ ہوا کہ بلیم گیم کی سیاست کو انہوں نے اپنی عوامی مقبولیت کا پیمانہ بنالیا چنانچہ یہ سوچ کر وہ ملک‘ اسکے آئین اور اسکے تحت قائم ریاستی‘ انتظامی اداروں پر گالم گلوچ کے انداز میں اوئے توئے کرتے ہوئے چڑھائی کرنے لگے کہ انکے اس انداز سیاست سے انکی عوامی مقبولیت عروج پائے گی اور سیاسی میدان میں انہیں کوئی چھو بھی نہیں سکے گا۔ اس سیاست میں انہیں یقیناً انکی سوچ اور تراشے گئے فلسفے کے عین مطابق عوامی مقبولیت حاصل ہو بھی گئی مگر ان کیلئے غور وفکر کا متقاضی یہ مرحلہ تھا کہ اس عوامی مقبولیت کو انہوں نے غربت و افلاس کے دلدل میں دھنسے عوام کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے استعمال کرنا ہے اور اقوام عالم میں اس ارض وطن کی سربلندی کا اہتمام کرنا ہے یا ریاست پاکستان کا چہرہ بگاڑ کر اور اس کا تشخص خراب کرکے دنیا کے سامنے لانا ہے۔ بدقسمتی سے انہوں نے اس سنجیدہ غوروفکر کی بجائے نتائج سے بے پرواہ ہو کر ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف اودھم مچانے والا راستہ اختیار کرلیا جس کا نتیجہ بالآخر آج انکے سامنے آرہا ہے۔
یہی سوچنے والی بات ہے کہ اگر وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز کسی شخصیت کے ہاتھوں ہی آئین‘ قانون اور اداروں کا تقدس محفوظ نہ ہو تو عام آدمی سے ملک و قوم کی عزت و تقدس کی پاسداری کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔ یقیناً اسی بنیاد پر وزیراعظم اور دوسرے اہم قومی مناصب پر فائز شخصیات سے ملک و قوم کے مفادات اور آئین و قانون کی پاسداری کیلئے قائدانہ کردار کی توقع کی جاتی ہے۔ عوامی مقبولیت تو عوام کو درپیش غربت‘ مہنگائی اور روٹی روزگار کے سنگین مسائل میں حقیقی ریلیف دیکر بھی حاصل کی جا سکتی ہے مگر عمران خان اپنے دور اقتدار میں نہ صرف ان عوامی مسائل سے لاتعلق رہے بلکہ انکی حکومتی مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں یہ مسائل بڑھتے ہی چلے گئے۔ اسی بنیاد پر انکی حکومت کیخلاف سخت عوامی اضطراب پیدا ہوا جسے انکی مخالف سیاسی قیادتوں نے انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیلئے استعمال کیا۔ انہوں نے اپنے خلاف اس عوامی اضطراب کا رخ موڑنے اور اپنے لئے سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے کے مقصد کے تحت اپنے خلاف امریکی سازش کا بیانیہ تراشا اور اس کیلئے سفارتی سطح پر موصول ہونیوالے امریکی سائفر کو اپنے سیاسی مقاصد کے مطابق ڈھال کر ڈھول پیٹنا شروع کر دیا کہ امریکہ انکی حکومت گرانا چاہتا ہے۔ سائفر کے حوالے سے سفارتی سطح پر یہ اصول لاگو ہوتا ہے کہ یہ عام پبلک کو سمجھ نہ آنے والے الفاظ پر مبنی ہوتا ہے تاکہ اسکے پبلک ہونے سے ریاستی مفادات پر کسی قسم کی زد نہ پڑے۔ عمران خان نے اپنی مقبولیت کے زعم میں نہ صرف امریکی موصولہ سائفر ڈی کوڈ کراکے اس میں اپنے سیاسی مفادات کا تڑکا لگوایا بلکہ اسے وزیراعظم آفس کے ریکارڈ سے غائب بھی کر دیا۔ انکے اس جرم کا ثبوت انکے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور اس وقت کے سفیر برائے امریکہ اسد مجید کے بیانات کی صورت میں سامنے آیا تو انکے خلاف اس کیس کا میرٹ بھی ازخود بن گیا۔ اس کا انکے وکلاء کو بھی ادراک تھا اس لئے انہوں نے کیس کو ملتوی کرانے کیلئے تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے تاکہ 8 فروری کے انتخاب سے پہلے اس کیس کے فیصلہ کی نوبت نہ آئے۔ عدالت نے ان کا یہ حربہ ملزمان کیلئے سرکاری وکیل مقرر کرکے ناکام بنادیا اور کیس کی سماعت مکمل کرکے اپنا فیصلہ صادر کردیا۔ اب پی ٹی آئی اس پر جتنی مرضی سیاست کرتی رہے مگر نااہلیت کے بعد قید کی سزا نے ان کیلئے مکافات عمل کا منظر تو بنا دیا ہے۔ اب آپ بے شک ’’عندلیب ‘‘ کو مل کر آہ و زاریاں کرنے کیلئے پکارتے رہیں۔