تینوں بڑی جماعتیں اوکاڑہ کی سیاست پرحاوی
اوکاڑہ کے حلقہ این اے 135 جو کہ صدر گوگیرہ۔رینالہ و گردونواح کے چکوک پر مشتمل ہے اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 5 لاکھ 20 ہزار 533 ہے۔ جن میں مرد ووٹوں کی تعداد 2 لاکھ 81 ہزار 909 ہے اور خواتین ووٹوں کی تعداد 2لاکھ 38 ہزار 624 ہے۔ اس حلقہ میں 1135 پولنگ بوتھ بنائے جائیں گے ۔اس حلقہ میںپاکستان مسلم لیگ(ن)کے امید وار سابق ایم این اے چوہدری ندیم عباس ربیرہ ہیں جبکہ ان کے مقابلے میںآزاد پی ٹی آئی کے ملک اکرم بھٹی اورپی پی پی کے رائے غلام مجتبیٰ کھرل امیدوار ہیں۔ ملک اکرم بھٹی تحصیل ناظم رینالہ خورد رہ چکے ہیں اور پی پی پی کے امیدوار رائے غلام مجتبیٰ کھرل بھی اس حلقہ سے ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں۔پہلے دونوںامیدوار وںکے مابین سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔اوکاڑہ کاحلقہ این اے 136 جو اوکاڑہ شہر اور گرد ونواح کے دیہاتوں 4/L،2-L،3/Rاور جی ڈی پر مشتمل حلقہ ہے اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 2لاکھ 55 ہزار 996ہے ۔اس حلقہ سے کل19 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں۔جن میں آزاد امیدوار بھی ہیں۔ مگر اس حلقہ میں اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن) کے چوہدری ریاض الحق جج اورآزادپی ٹی آئی میں ہے تاہم پیپلز پارٹی بھی کامیابی کے لئے سخت جدو جہد کرتی نظر آرہی ہے۔چوہدری ریاض الحق 2015کے ضمنی الیکشن میں آزاد حیثیت سے جیت کر مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو ئے تھے۔پھر 2018 کے الیکشن میں وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ۔جنہوں نے اوکاڑہ کی تاریخ میں ریکارڈ ووٹ حاصل کئے تھے۔اسی طرح اس حلقہ میں(پی۔ٹی۔آئی)کے آزاد امیدوار راﺅ حسن سکندر میدان میں اترے ہیں۔راﺅحسن سکندر سابق وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم پاکستان راﺅسکندر اقبال مرحو م کے صاحب زادے ہیں۔ جنہیںعوام قائد تعمیر شہر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ راﺅحسن سکندر کارکنوں کے ہمراہ اپنے والد مرحوم کی محنت۔ اور بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر عوام کے سامنے انتخابی مہم پر ہیں گو کہ وہ سیاسی بصیرت پر عبور نہیں رکھتے۔مگر وہ حلقہ کی بااثر شخصیات اور راو¿ سکندر کی خدمات پر اپنے مدمقابل امیدواروں کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں ہیں۔اس حلقہ میںپاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری سجاد الحسن پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری خزانہ کا تجربہ رکھتے ہیں 2018 کے الیکشن میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس کی وجہ پنجاب بھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی گرفت کمزور ہونے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا تحریک انصاف کی طرف جھکاﺅ سے ہوا۔ اس حلقہ میں جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹربابر رشید بھی اپنی جماعت کے منظم کارکنوں کی بدولت حلقہ سے بڑے ووٹر کی حمایت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جو دوسری سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے ووٹر پر اثر انداز ہوسکتی ہے اس حلقہ میں جماعت اسلامی کی کامیابی کوئی معجزہ بھی ہو سکتی ہے۔یہی پوزیشن آزاد امیدواروں کی نظر آرہی ہے جن کی کامیابی کی توقع تو نہیں مگر وہ بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے
ووٹ حاصل کرنے کے تناسب کو کم کر سکتے ہیں۔اسی حلقہ سے سابقہ ایم پی اے چوہدری مسعود شفقت ربیرہ بھی قومی اسمبلی کے لئے اپنی بھر پور انتخابی مہم چلارہے ہیں۔اس حلقہ میں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) اورپی ٹی آئی کے آزاد امیدوار کے مابین ہونے کی توقع دکھائی دے رہی ہے۔اب تک کا پس منظر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کی طرف دکھائی دے رہا ہے۔مگر 8 فروری پولنگ ڈے کے نتائج عوام کے فیصلے سے وابستہ ہیں عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں انتخابی نتائج آنے تک انتظار کرنا پڑے گا۔اس حلقہ میں پی پی 190میں مسلم لیگ(ن) کے سابق صوبائی وزیر میاں یاور زمان اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مہر عبدالستار جو انجمن مزارعین کے جنرل سیکرٹری بھی ہے کے درمیان کانٹے دار مقابلہ کی توقع ہے۔اوکاڑہ کا حلقہ این اے 137 میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار راﺅ محمد اجمل خاں اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار سابق صوبائی وزیر سید رضا علی گیلانی کا ون ٹو ون مقابلہ دکھائی دے رہاہے۔مسلم لیگ(ن) کے راﺅ محمد اجمل خاں الیکشن 2018 میں مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے ۔الیکشن 2024 میں بھی انہی دونوں امیدواروں میں مقابلہ دکھائی دے رہا ہے۔اس حلقہ میں ہونے والے الیکشن میں سید علی رضا گیلانی کو سابق وزیر اعلی پنجاب میاں منظور احمد خاں وٹوکے تعمیر وطن گروپ اور سابقہ ایم پی اے جگنو محسن کے المحسن گروپ کی حمایت حاصل ہو گئی ہے جس سے سید علی رضا گیلانی کی پوزیشن مستحکم نظر آرہی ہے۔مسلم لیگ(ن) کے راﺅ محمد اجمل خاں بھی کامیابی کے لئے پر امیدہیں ضلع بھر میں حلقہ این اے 137 میں ایک دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔اوکاڑہ کا حلقہ این اے 138 میں ایک دوسرے کے سیاسی حریف سابقہ وزیر اعلی پنجاب میاں منظور احمد خاں وٹو آزاد امیدوار۔مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر میاں محمد معین خاں وٹو ایک بار پھر الیکشن 2024 میں میدان میں اترے ہیں۔الیکشن 2018 میں میاں منظو احمد خاںوٹو شکست کھا گئے تھے میاں معین احمد خاں وٹو کامیاب ہوئے تھے۔الیکشن 2024 میں بھی دونوں امیدوار میدان میں اترے ہیں حلقہ میں دونوں مضبوط سیاسی شخصیات ہیں جن کے مابین بھی دلچسپ مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔ الیکشن 2018 میں ن لیگ نے ضلع بھر میں کلین سویپ کیا تھا۔اب الیکشن 2024 میں 8فروری کے پولنگ ڈے کے نتائج تک انتظار کرنا پڑے گا عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں کامیابی کس کا مقدر بنتی ہے اور شکست کون کھاتا