• news

خان اور ان کے ساتھیوں کی مشکلات کا سفر شروع

جو شخص یہ بات تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ بانی تحریک انصاف کو ہماری اصلی تے وڈی سرکار عبرت کا نشان بنانے کو تلے بیٹھی ہے وہ ناقابل علاج حد تک متعصب ہے۔ یہ لکھنے کے بعد تسلیم یہ بھی کرنا ہوگا کہ اپریل 2022میں حکومت گنوانے کے بعد عمران خان اپنے وعدے کے مطابق ’’خطرے ناک‘‘ سے ’’خطرے ناک‘‘ہونا شروع ہوگئے۔کامل ایک برس تک انہوں نے امریکہ میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید صاحب کی جانب سے مجاز حکام کو بھیجے ایک خفیہ پیغام کی من مانی تشریح کے ذریعے ایک داستان گھڑی۔ مذکورہ داستان کے مطابق دنیا کی واحد سپر طاقت کہلاتا امریکہ ان کی آزادانہ روش سے اکتا گیا تھا۔وہ بارہا متنبہ کرنے کے باوجود جھکنے کو آمادہ نہ ہوئے تو مختلف سیاسی جماعتوں میں بٹے ان کی مخالفین کو یکجا ہوکر عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کو اکسایا گیا۔ وہ تحریک قومی اسمبلی میں جمع ہوئی تو ہماری ریاست کی سیکیورٹی یقینی بنانے والے دائمی ادارے بھی اسے کامیاب کروانے کو متحرک ہوگئے۔ اسی باعث تحریک انصاف کے قائد اپنی حکومت گنوانے کے بعد تقریباََ ہر روز پاکستان کے کسی بڑے شہر پہنچ کر بھاری بھر کم عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے رہے۔اپنی تقاریر کے دوران انہوں نے ’’میر جعفر‘‘ کا استعارہ بے دریغ انداز میں استعمال کیا۔ قوم کو ’’حقیقی آزادی‘‘ کی جنگ کے لئے تیار کرتے رہے۔
پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے خوف میں مبتلا ہوئی شہباز حکومت ان کی رابطہ عوام مہم کی بدولت دیوار سے لگنا شروع ہوگئی۔ ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف سے جو ’’امدادی سیمنٹ‘‘ حاصل کرنا تھا اس کا حصول یقینی بنانے کے لئے عوام پر مہنگائی کا ہولناک عذاب مسلط ہوا۔ آج بھی ہمارے ہاں افراطِ زر 30فی صد کی حدوں کو چھورہا ہے۔یہ کالم لکھنے سے چند ہی لمحے قبل اطلاع یہ بھی ملی ہے کہ بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت میں مزید پانچ ر وپے کااضافہ کیا جائے گا۔ممکنہ اضافے کا اطلاق عوام کی کمر میں باقی بچی توانائی بھی نچوڑلے گا۔
خلقِ خدا کے مسائل پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے لیکن ہم ’’صحافی‘‘ مجبور ہوگئے کہ اپنے لکھے اور بولے الفاظ کے لئے زیادہ سے زیادہ شیئرز اور لائیکس کے حصول کے لئے ’’عدت میں شدت‘‘ جیسی کہانیوں کو مزید چسکے دار بناکر پیش کریں۔ سیاستدانوں یا مشہورافراد کی ذاتی زندگیوں سے جڑے سکینڈل چسکہ فروشی تک محدود رہیں تو شاید برداشت کیا جاسکتا ہے۔’’عدت کی شدت‘‘نے مگر بانی تحریک انصاف کو ان کی اہلیہ سمیت سات برس کی سزا دلوادی ہے۔ اس سزا کے خلاف اب اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنا پڑے گا۔ عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ ہم دے نہیں پائیں گے۔ ان کا حل ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے۔
اس کالم کے دیرینہ قاری اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میں تحریک انصاف کے بانی اور ان کے جنونی مداحین کے انداز سیاست سے ہرگز متفق نہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مخالفین کی ذاتی زندگیوں میں ’’گند‘‘ ڈھونڈ کر اسے مسلسل اچھالنے کا سلسلہ بھی اسی جماعت نے شروع کیا تھا۔ اس تناظر میں جو افراد ’’گناہ آلود افعال‘‘ میں ملوث بناکر لوگوں کے سامنے لائے گئے ان میں یہ بدنصیب بھی شامل تھا۔ اس کے باعث جو ’’گزرے‘‘ ہیں داغ پر صدمے انہیں دیانتداری سے بھلاتے ہوئے میں نے ’’عدت میں شدت‘‘ والے مقدمے کی تفصیلات کی بابت شدید بدمزگی محسوس کی۔ یہ خواہش دل میں مچلتی رہی کہ کاش…
یہ سوچتے ہوئے بھی لیکن اس حقیقت کونظرانداز نہیں کرپایا کہ خود کو شہرجاناں میں یک وتنہا باصفا ثابت کرنے کی مہم بھی بانی تحریک انصاف ہی نے شروع کی تھی۔ خود کو پارسائی کی مجسم علامت بناکر پیش کرنے کے باوجود انہوں نے بشریٰ بی بی سے شادی کے اصل دن کو بذاتِ خود مشکوک انداز میں چھپانے میں ناکامی کے بعد اپنی اہلیہ کو بھی حتمی پارسابناکر پیش کرنا شروع کردیا۔ اس ضمن میں داستان پارسائی میں جو نمایاں جھول تھے اسے اصلی تے وڈی سرکار نے انتقامی انداز میں عیاں کرنے کی ٹھان لی۔ سرکار کے غضب ناک ہونے کی بنیادی وجہ مگر اپریل 2022کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے پھیلائی سائفر کہانی اور میر جعفر کے طعنے ہی نہیں تھے۔ پانی سر سے 9مئی 2023کے روز حقیقی معنوں میں گزرتا محسوس ہوا۔
تحریک انصاف کے قائد اپنی حکومت کے زوال کا حتمی ذمہ دار قمرجاوید باجوہ کو ٹھہراتے ہیں جو بقول ان کے امریکی وزارت خارجہ کے ایک اہل کار ڈونلڈ لو کے ساتھ ’’مل گئے‘‘۔ نومبر2022میں لیکن قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ان کی رخصت کے بعد سیاسی اعتبارسے تحریک انصاف کے لئے لازمی تھا کہ وہ نئی عسکری قیادت سے کھلے ذہن کے ساتھ اپنے روابط بحال کرتی۔ قمر جاویدباجوہ کی رخصت بھی تاہم ’’ادارے‘‘ کی بابت بانی تحریک انصاف کا رویہ بدل نہ پائی۔ اس کے نتیجے میں 9مئی ہوا۔ اس روز ہوئے واقعات کے بعد اس کالم میں جان کی امان پاتے ہوئے مسلسل لکھتا رہا ہوں کہ ’’وہاں‘‘ طیش بڑھتا چلاجارہا ہے۔بانی تحریک انصاف مگر نجانے کس بنیاد پر ریاست کے طاقتور ترین ادارے کے ساتھ ’’تخت یا تختہ‘‘ والا معرکہ برپا کرنے کو بے چین رہے۔ ’’دیوار‘‘ کو فقط گھونسوں سے گرانے پر تل گئے۔ ایسے حالات میں یہ سوچنا یقینا فروعی ہے کہ تحریک انصاف کے بانی کو کس انداز میں اڈیالہ جیل میں ریکارڈ بناتی رفتار کیساتھ ہوئی سماعتوں کی بدولت یکے بعد دیگرے سنگین الزامات کے تحت طویل المدتی سزائیں سنادی گئی ہیں۔ جی ہاں جس تیزرفتاری سے مقدمات چلاتے ہوئے بالآخر سزائیں سنائی گئی ہیں وہ اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف بھی تقریباََ یقینی دکھارہی ہیں۔سابق وزیر اعظم اور ان کے وفادار ساتھیوں کی مشکلات کا سفر مگر میری دانست میں ابھی تو شروع ہوا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد ہی آسانیاں تلاش کرنے کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن