لاہور میں کون ہارے گا؟؟؟؟
آج سے دو روز بعد آپ ووٹ کاسٹ کر چکے ہوں گے یا پھر ووٹ کاسٹ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہوں گے۔ ملک کے بڑے شہروں میں مختلف جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے اپنے حلقوں میں جس حد تک ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش کر سکتے تھے وہ کر چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ووٹرز کس پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں، کسے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں، کسے مستقبل کے فیصلے کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ کراچی، ملتان، اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ، لاہور اور گوجرانوالہ سمیت دیگر اہم شہروں پر سب کی نظریں ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھا ہے کہ برج الٹ سکتے ہیں اگر لاہور کے حلقوں پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی کہیں نہ کہیں حیران کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
این اے 117 کی بات کی جائے تو اس حلقے میںعبدالعلیم خان سب سے نمایاں نظر آتے ہیں، انتخابی مہم، عوامی رابطہ مہم اور برسوں سے فلاحی کاموں کی تاریخ رکھنے کی وجہ سے لوگ ان کی بات سن رہے ہیں اور حلقے میں انہیں مدمقابل پر برتری نظر آتی ہے۔اس کے بعد علی اعجاز بٹر نظر آتے ہیں جب کہ آصف ہاشمی بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ این اے ایک سو سترہ سے عبدالعلیم خان کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں۔ این اے 118 میں شہباز شریف کے صاحبزادے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف اور عالیہ حمزہ کے مابین مقابلہ ہے۔ میاں حمزہ شہباز شریف کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں۔ عالیہ حمزہ انتخابی مہم کا حصہ نہیں ہیں۔ این اے 119 سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف کا مقابلہ شہزاد فاروق سے ہے۔ حلقے میں انتخابی سرگرمیاں نظر آتی رہی ہیں۔ مریم نواز شریف کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں لیکن شہزاد فاروق کو اچھے ووٹ بھی مل سکتے ہیں۔ صوبائی سیٹ پی پی 149 میں بھی عبدالعلیم خان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ این اے 120 میں سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جیت کے امکانات ہیں۔ این اے 121شیخ روحیل اصغر کا وسیم قادر سے مقابلہ ہے۔ یہاں روحیل اصغر کو برتری نظر آتی ہے۔ این اے ایک سو اکیس سے مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر کی کامیابی کے امکانات ہیں۔ این اے 122میں خواجہ سعد رفیق اور لطیف کھوسہ کا سخت مقابلہ ہے۔ یہاں کانٹے کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔ انتخابی مہم اور ووٹرز کا رجحان دیکھا جائے تو خواجہ سعد رفیق اور لطیف کھوسہ میں سے کوئی بھی جیت سکتا ہے۔ آٹھ فروری کو اگر خواجہ سعد رفیق نے زیادہ بہتر کام کیا تو ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ این اے 123 میں سابق وزیراعظم شہباز شریف کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں۔مدمقابل افضال عظیم کمزور امیدوار ہیں تاہم پارٹی ووٹ کو دیکھا جائے تو افضال عظیم پینتیس سے چالیس ہزار ووٹ لے سکتا ہے۔اس حلقے کے نیچے دو صوبائی نشتوں پر شہباز شریف اور ایک پر مریم نواز امیدوار ہیں۔ این اے 124رانا مبشر اقبال کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ رانا مبشر کے مدمقابل ضمیر جھیڈو ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رانا مبشر اقبال بڑی لیڈ سے کامیابی حاصل کریں۔ این اے 125 میں مسلم لیگ ن کے افضل کھوکھر جیت سکتے ہیں ہو سکتا ہے کہ مارجن بہت زیادہ نہ ہو۔ رانا جاوید کے نیچے رشید بھٹی کا بیٹا احمر بھٹی اور خالد گجر تگڑے صوبائی امیدوار ہیں۔ این اے 126 میں سیف الملوک کھوکھر جیت سکتے ہیں۔ مدمقابل توقیر کھوکھر کی مہم خاصی کمزور ہے۔این اے 127 بلاول بھٹو، ظہیر عباس کھوکھر اور عطاتارڑ کے مابین برابر اور بہت کم مارجن سے فیصلہ متوقع ہے۔ اس حلقے پر سب کی نظریں ہیں سابق صدر آصف علی زرداری تو یہ سیٹ جیتنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ مقابلہ بہت سخت ہے اور یہ حلقہ مسلم لیگ ن کو حیران کر سکتا ہے۔ یہاں سے بلاول بھٹو زرداری کو کامیابی مل سکتی ہے۔ این اے 128 استحکام پاکستان پارٹی کے عون چوہدری اور سلمان اکرم راجہ کے مابین سخت مقابلے کی توقع ہے ۔ عون چوہدری نے انتخابی مہم تو ٹھیک چلائی ہے لیکن سلمان اکرم راجہ کو برتری حاصل ہے وہ این اے 128 سے جیت کر رکن قومی اسمبلی بن سکتے ہیں ۔ این اے 129 حافظ میاں محمد نعمان اور میاں اظہر کا مقابلہ ہے۔ میاں اظہر کو معمولی برتری ہے لیکن حافظ میاں محمد نعمان متحرک سیاسی کارکن ہیں، وہ ووٹرز کو متحرک کرنے اور پولنگ سٹیشنز تک لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آٹھ فروری کی حکمت عملی اور طاقت کا بہتر استعمال کرنے والا یہاں جیتے گا۔ این اے 130 نواز شریف کو برتری حاصل ہے، جیت جائیں گے۔
لاہور میں مسلم لیگ نون کم از کم دس سیٹیں جیت سکتی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی بھی ایک سیٹ پر کامیاب ہو سکتی ہے۔ تین سیٹوں پر میاں اظہر، سلمان اکرم راجہ اور لطیف کھوسہ بھی حیران کن نتائج دے سکتے ہیں۔ البتہ بہت سارے فیصلے آٹھ فروری کو ہی ہوں گے۔
آخر میں مرزا اسدْاللہ خان غالب کا کلام
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
ہاں بھلا کر ، تیرا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے