حکومت سازی میں چھوٹی جماعتیں‘ آزاد امیدوار فیصلہ کن کردار ادا کریں گے
اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان آج ملک کے اندر جمہوری پارلیمانی سفر کا اج ایک اہم سنگ میل عبور کرے گا اور ملک کے عوام آئندہ پانچ سال کے لیے وفاق اور صوبوں میں اپنی نمائندہ حکومتیں قائم کرنے کے لیے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔ اس بات کی قطع نظر کے ملک کے اندر عمومی طور پر پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر شکوک و شبہات ظاہر کرنے کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔ اس وقت ملک کی اہم سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون، جمعیت العلماء اسلام، ایم کیو ایم، تحریک لبیک پاکستان، پاکستان مسلم لیگ کیو، استحکام پاکستان پارٹی، جماعت اسلامی، اے این پی، پی ٹی آئی شامل ہیں جبکہ صوبوں کی سطح پر کام کرنے والی بعض جماعتیں بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ سیاسی جماعت نے انتخابات سے لا تعلق کی ظاہر نہیں کی۔ تین بڑی سیاسی جماعت ہوں جن میں پاکستان مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی شامل ہیں کی طرف سے الیکشن میں کامیابی کے دعوے کیے گئے ہیں۔ دو سیاسی جماعتوں نے تو اپنے وزارت عظمی کے امیدواروں کا اعلان بھی کیا ہوا ہے۔ میں پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے یہ تواتر سے کہا گیا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں میاں نواز شریف وزارت عظمی کے امیدوار ہوں گے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمی کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں میں اکثریت کے قریب تر کامیابی حاصل کر لیں گے اور انہیں دیگر جماعتوں جن میں ان کی اتحادی جماعتیں بھی شامل ہیں کی مدد ہوگی اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے اتفاق نہیں کرتی ہے، پیپلز پارٹی کے اندر کام کرنے والے ایک انتخابی سیل کا تجزیہ ہے کہ سندھ سے 50 نشتیں لے لیں گے، جبکہ ان کو جنوبی پنجاب کے پی کے اور بلوچستان سے کامیابی ملے گی اور سنٹرل پنجاب انہوں نے 2018ء کے مقابلے میں زیادہ نشستیں ملنے کی توقع ہے، ان کی نشست سے 70 سے 80 کے درمیان ہوں گی۔ عمومی طور پر تجزیہ نگاروں کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ الیکشن کے نتائج اس انداز کے ہوں گے جس میں چھوٹی جماعتوں سے جیتنے والے امیدوار اور آزاد امیدوار ہی فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ موسمی حالات اور بعض سکیورٹی مسائل کے باوجود ٹرن اور کافی بہتر رہنے کا امکان ہے کیونکہ ملک کی نوجوان آبادی ووٹ ڈالنے کے بارے میں کافی پرجوش نظر آرہی ہے۔ اس نوجوان آبادی کا ووٹ جس جماعت کی طرف رخ کر گیا وہی کامیابی حاصل کرے گی۔