ملک میں انتخابی عمل کی خوش آئند تکمیل
ملک اور سسٹم کی سلامتی کے درپے عناصر اور دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والے اسکے ایجنٹوں کی دہشت گردی اور افواہوں کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کے باوجود جمعرات آٹھ فروری کا یوم انتخاب گزشتہ روز شیڈول کے مطابق خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل کو پہنچا اور عوام نے جوش و جذبے کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کے پولنگ بوتھوں پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرکے ملک کے بدخواہوں کی تمام سازشیں ناکام بنا دیں۔ پولنگ کیلئے صبح آٹھ بجے کا وقت مقرر تھا جبکہ اس سے قبل ہی پولنگ سٹیشنوں میں ووٹروں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور سیاسی جماعتوں نے بھی جوش و خروش کے ساتھ ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق اور ایس او پیز کے مطابق مقررہ حدود میں تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں اور انکے امیدواروں نے پولنگ کیمپ بنا رکھے تھے جہاں ووٹروں کی رہنمائی کی جاتی رہی جبکہ امن و امان قائم رکھنے کیلئے پاک فوج، پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے اہلکار جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اسی طرح پولنگ بوتھوں کے اندر انتخابی عملہ بھی پوری دل جمعی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا رہا۔ پولنگ سے ایک روز قبل بدطینت سازشی عناصر نے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے ایجنڈے کے تحت بلوچستان کے شہروں پشئین‘ قلعہ سیف اللہ اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سفاکانہ دہشت گردی کے ذریعے بے دریغ انسانی خون بہایا اور 35 معصوم و بے گناہ لوگوں کی جانیں لیں جس کا مقصد عوام میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرکے انہیں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکنا تھا۔ مگر عوام نے ان بدبختوں کے مذموم عزائم 8 فروری کو اپنے جوش و جذبے کے ذریعے ناکام بنا دیئے۔ 7 فروری کو پشئین میں ایک آزاد امیدوار اسفندیار کاکڑ کے انتخابی دفتر میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں 18 افراد جاں بحق اور 30 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسکے کچھ ہی دیر بعد بلوچستان کے علاقے قلعہ سیف اللہ میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدوار مولانا عبدالواسع کے انتخابی دفتر کے باہر دھماکہ ہوا جس میں دس افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے ان دو واقعات کے بعد بلوچستان میں مزید دھماکوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں چنانچہ بلوچستان میں صوبائی حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور دوسری سیاسی و دینی قیادتوں نے اس گھنائونی دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے دہشت گردی کی ان وارداتوں کو بھارتی سازش کا شاخسانہ قرار دیا اور کہا کہ ان واقعات میں وہی لوگ ملوث ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے مچھ میں دہشت گردی کی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لیں گے اور بھارت کے دہشت گردی کے ایجنڈے کو نیست و نابود کر دیں گے۔
گزشتہ روز کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ہونیوالے دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہوئے جبکہ جنوبی وزیرستان میں انتخابی امیدوار نصیراللہ وزیر کی گاڑی کے قریب دھماکہ ہوا جس میں دو افراد زخمی ہوئے۔ اسی طرح گزشتہ روز قلعہ عبداللہ میں حافظ حمداللہ کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔ دہشت گردی کی ان پے در پے وارداتوں کی بنیاد پر گزشتہ روز ایران اور افغان سرحد بند کر دی گئی جبکہ دفتر خارجہ نے پاکستان کے انتخابی عمل کے حوالے سے اقوام متحدہ کی تشویش مسترد کرتے ہوئے باور کرایا کہ پاکستان میں آئین و قانون کی حکمرانی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور ہمارا عدالتی نظام منصفانہ ٹرائل اور مناسب قانونی عمل فراہم کرتا ہے۔ دہشت گردی کی گزشتہ روز کی وارداتوں کے باعث چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے تمام متعلقہ اداروں کو سکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایات جاری کیں اور باور کرایا کہ انتخابات کے نتائج میں کوئی تاخیر ہوگی نہ کسی کو رکاوٹ پیدا کرنے دینگے۔ انہوں نے چاروں صوبائی چیف سیکرٹریوں اور آئی جیز پولیس سے ٹیلی فونک رابطے کرکے سکیورٹی انتظامات سے متعلق ضروری ہدایات جاری کیں اور کہا کہ پولنگ سٹیشنوں پر ووٹرز‘ آر اوز ‘ ڈی آر اوز اور دوسرے انتخابی عملہ کو سکیورٹی فراہم کی جائے۔ ان ہدایات کی روشنی میں پولنگ والے روز ملک بھر کے پولنگ سٹیشنوں کے مخصوص مقامات پر فوج‘ پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے پانچ لاکھ 96 ہزار 618 اہلکار تعینات تھے جو دن بھر پولنگ کے دوران سکیورٹی یقینی بنانے کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ چنانچہ مجموعی طور پر پولنگ کا عمل پرامن طریقے سے مکمل ہوا تاہم پولنگ والے دن موبائل فونز کی سروس بشمول انٹرنیٹ کی سہولت بار بلار معطل ہوتی رہی جس کے باعث شہریوں کو باہمی روابط اور اپنے ووٹ اور پولنگ سٹیشنوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے پولنگ والے دن ملک میں کہیں بھی انٹرنیٹ سروس بند نہ ہونے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم اس اعلان پر عملدرآمد نہ کرکے انتخابی عمل کے بارے میں بلاوجہ شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ملک کے بدخواہوں کو موقع فراہم کیا گیا۔
اب جبکہ ملک بھر میں انتخابی عمل شیڈول کے مطابق تکمیل کو پہنچ چکا ہے جس کے بعد رات گئے تک غیرسرکاری طور پر انتخابات کے نتائج سامنے آنے کا سلسلہ جاری رہا اور آج یقینی طور پر یہ بات بھی سامنے آجائیگی کہ عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھ رہا ہے۔ اس انتخابی عمل سے یقیناً ملک میں سسٹم کے تسلسل و استحکام کی بنیاد مضبوط ہوئی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں سیاسی منافرت کی پھیلائی فضا سے باہر نکل کر انتخابی نتائج کو خوش دلی سے تسلیم و قبول کرنے کا کلچر فروغ دیں تو یقیناً کسی کو ماضی کی طرح جمہوریت کی گاڑی ٹریک سے اتارنے کا موقع نہیں ملے گا اور عوام بھی سلطانء جمہور کے ثمرات سے مستفید ہو پائیں گے۔