جمعۃ المبارک 28رجب المرجب 1445ھ ‘ 9 فروری 2024ء
عوام الیکشن کی شفافیت سے پرامید 76 فیصد نے نتائج تسلیم کرنے کو تیار۔
آئی پی ایس آر کے کئے گئے سروے سے یہ حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس سروے کے مطابق 74 فیصد شہری اور 77 فیصددیہی عوام نے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کی رائے دی ہے جو خوش آئند ہے۔ اس سروے کے مطابق 76 فیصد افراد نے رائے دی اور 17 فیصد نے جواب نہیں دیا۔ اب خدا کرے ہماری تمام سیاسی جماعتیں بھی اسی بڑے دل کا مظاہرہ کریں اور الیکشن کے نتائج خواہ جو بھی ہوں کھلے دل سے تسلیم کریں۔ الیکشن جمہوریت کا سفر جاری رکھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد افراتفری ہنگامہ آرائی جمہوریت کا سفر کھوٹا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہم سے زیادہ اور کون جانتا ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ پھراس کے بعدشرمندہ شرمندہ یہی ایک دوسرے سے متحارب جماعتیں جو پنجے جھاڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہتی ہیں وہی پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک دوسرے کو گلے لگا کر بیشرمی سیجمہوریت بحال کرو کے نعرے لگاتی ایک ہی صفحے پر نظر آتی ہیں۔ تب ان کی جنگ کہاں چل جاتی ہے۔
اس وقت جو الیکشن نتائج تسلیم کرنے اور الیکشن کی شفافیت پر یقین کا اظہار ہو رہا ہے اس کو پختہ ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اب یہ کام کر سکتی ہیں ورنہ وہی میں نہ مانوں والی مرغ کی ایک ٹانگ والی صورتحال سیاسی حالات کو مزید ابتر بنا دیے گی۔ اب خدا جانے ایسے سروے کے نتائج پر لوگ اور پارٹیاں کیا ردعمل دیتی ہیں۔ فی الحال تو ’’دکھاں دی ماری جنڈری علیل اے‘‘ اور وہ بقول اقبال
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ
پر یقین رکھنا چاہتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ سیاسی بازیگر بھی اس بات کو یقینی بنائیں۔
٭٭٭٭٭
واسا میٹر نصب کرے گا، جتنا پانی استعمال کریں گے بل آئے گا۔ ہائی کورٹ۔
بڑے لوگ کہتے تھے ایک وقت آئے گا جب پینے کا پانی بھی قیمتاً دستیاب ہو گا۔ یہ آخری وقت کی علامت ہو گا۔ تب لوگ ان پر ہنستے تھے کہ بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایک ایک گھونٹ پانی پیسوں پر مل رہا ہے۔ دنیا میں کروڑوں لوگ ایک ایک قطرہ پانی کو ترس رہے ہیں۔ اب عالمی سطح پر بھی ایک ایک قطرہ پانی کو محفوظ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں کیونکہ زمین پر پانی تیزی سے ختم ہو رہا ہے زمین بنجر ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں لوگ چونکہ مست ہیں اس لیے اس اہم بات پر دھیان نہیں دے رہے کہ ہمارا ملک بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے بلکہ ٹاپ پوزیشن پر ہے جہاں پانی آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی سے کمیاب اور نایاب ہو رہا ہے۔ مگر ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں۔ ہم گھروں، سڑکوں، گاڑیوں اور نجانے کس کس کام پر پینے کا پانی بے دردی سے استعمال کر کے اسے ضائع کرتے ہیں۔
پوری دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ پینے کا صاف پانی صفائی ستھرائی اور دھلائی کے لیے استعمال ہوتا ہو۔ مگرہمارے ہاں تو گاڑیاں دھونے والے بھی اسی پینے کے پانی سے اپنا کاروبار چلا رہے ہوتے ہیں۔ باغبانی بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ پودوں کو بھی یہی پانی دیا جا رہا ہوتا ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو کسی کو پرواہ ہو۔ اب اس صورتحال کے پیشِ نظر عدالت نے بھی درست حکم دیا ہے کہ واسا اب ہر گھر پر عمارت پر پانی کے میٹر لگائے تاکہ جو جتنا پانی استعمال کرتا ہے اس کا بل بھی ادا کرے۔ یہ درست کام ہے۔ کم از کم اس طرح لوگوں کو احساس تو ہو گا کہ وہ کتنا پانی ضائع کر رہے ہیں یوں بھی جب پلے سے پیسے دینے ہوں گے تو خودبخود پانی کی بچت کا احساس پیدا ہو گا لہٰذا لوگوں کو مبارک ہو کہ اب گھروں کے باہر ایک اور نئے میٹر کا اضافہ ہونے والا ہے۔
٭٭٭٭٭
امریکی صدر کی یادداشت کھونے لگی۔
سچ کہیں تو عمر کے اس حصے میں ایسا ہونا عجب بات نہیں۔ ویسے بھی جوبائیڈن صاحب کو آنکھوں سے بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر آتا ہوتا تو وہ کم از کم غزہ میں اسرائیل کی بدترین وحشیانہ جارحیت ، فلسطینیوں کی المناک شہادتیں اور ایک پورے شہر کو کھنڈر بنتا ضرور دیکھتے۔ مگر دیکھ لیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور وہ متواتر یہ سب دیکھتے ہوئے بھی اسرائیلی جارحیت کی حمایت میں کمربستہ ہیں بلکہ حمایت کا سارا بستہ انہوں نے ہی اٹھایا ہوا ہے۔ ڈالرز ، اسلحہ اور حمایت سے بھرا یہ بستہ اسرائیل کے لیے آکسیجن ٹینٹ ثابت ہو رہا ہے۔ اس لیے جوبائیڈن صاحب نے غزہ کی طرف سے کان بھی بند کر رکھے ہیں۔ اسی بے پروائی کی وجہ سے اب قدرت نے ان کی یادداشت کا بھی دھڑن تختہ کر دیا ہے۔ گزشتہ روز ایک تقریب میں گفتگو کے دوران انہوں نے 24 سال قبل فوت ہو جانے والے فرانسیسی صدر کو زندہ قرار دیدیا۔ شاید جوانی میں جوبائیڈن اس فرانسیسی صدر سے خاصے متاثر رہے ہوں گے جبھی تو وہ ان کی یادداشت میں موجود ہیں۔ موجود حالت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب امریکی صدر کو :
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
بھی نہیں کہنا پڑ رہا۔ وہ خودبخود سب کچھ بھول رہے ہیں۔ کیا معلوم کبھی صبح اٹھ کر بیٹھیں تو خود کو بھی بھول چکے ہوں اور ہر راہ چلتے شخص سے پوچھ رہے ہوں کہ یہ بت بنا بیٹھا شخص کون ہے۔
٭٭٭٭٭٭