عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
میاں نذیر احمد میرے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ ہیں۔وہی میرے کالم کوکمپوز کرتے ہیں مگر گذشتہ ایک ماہ سے زائد عرصہ ہواکہ وہ صاحب فراش ہیں۔ گذشتہ کالم بھی بار آفس کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ محمد عدنان نے کمپوز کیا اور اسے ادارہ ’’نوائے وقت‘‘ تک پہنچایا۔ اللہ کریم میاں نذیر احمد کو صحت دے آمین۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو انتخابات کامرحلہ گذر چکا ہوگا۔ کیا منظر نامہ ہوگا ابھی سے اسلئے بیان نہیں کرسکتا۔ میر ے خیال میں انتخابات کے بعدان پر لکھنے کیلئے بہت مواد موجود ہوگا۔ اگر کوئی مرتب کرے تو باقائدہ ایک تاریخ بن سکتی ہے۔ طارق اسماعیل مرحوم ایک ایسے صحافی تھے جنہوں نے 85ء، 88، اورشائد 1993ء اوراسکے بعدکے تمام حلقوں کے نتائج اور ان کا تجزیہ کیا اور ہر انتخاب کی الگ الگ کتابی شکل بھی ترتیب دی۔ یہ انتہائی معلوماتی سلسلہ ان کی موت تک جاری رہا۔ اللہ کریم انہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔ واقعی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی اتنی متحرک گذارتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی کارنامہ ضرور انجام دیتے ہیں۔ انہی میں بیٹھے بیٹھے حلقہ ارباب ذوق کے قاسم محمود یاد آگئے جنہوں نے ’’شاہکارکتابیں‘‘ کے نام سے کتابیں پڑھنے کے شوقین لوگوں کے لئے دوروپے ،تین روپے یاحد پانچ روپے تک کی قیمت میں کتابیں مہیاکیں۔ مجھے یاد ہے کہ مختارمسعودکی شاہکارتصنیف ’’آواز دوست‘‘ ڈھائی روپے میں انہوں نے فروخت کیلئے پیش کی۔یہ سب 1970ء کی دہائی کے وسط سے چلتارہا پھر1980ء کے آغاز پر ختم ہوگیا۔ شائد ان کی صحت نے اجازت نہ دی یاحالات نے۔ایسے اور بھی دیوانے ہیں جو کبھی یاد آتے ہیں تو طبیعت شادوشاداب ہوجاتی ہے۔گذشتہ کالم 8’’فروری کے انتخابات کیلئے ہدائت نامہ‘‘ پڑھ کرہمارے پرانے دوست،پنجاب بھر میں ’’انٹر کالجئیٹ ڈبیٹ‘‘ کے پرانے ساتھی ،میرے شہر دار اور حال مقیم راولپنڈی چوہدری افتخار ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات تحریک انصاف نے فون کیا کہ ’’اووالی چس‘‘ نہیں آئی’’چس‘‘ سے ان کی مرادگوجرانوالہ کے احوال کی بابت تھی اور شہر کے کچھ دلچسپ کرداروں کے بارے میں۔ اسلام آباد سے نواز چیمہ نے بھی یہی گلہ کیاکہ کالم میں گوجرانوالہ کے تین نامعلوم پہلوانوں کاذکرتھا مگر شہر بھر کا نہیں۔ نواز چیمہ صاحب کابھی تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ آج کل اسلام آبادمیں مقیم ہیں بلکہ اب تو ہر لحاظ سے وہ ان کا شہر ہے۔ افتخار چوہدری کی طرح ان کے دل سے بھی گوجرانوالہ نہیں نکلتا۔ اپنا بچپن، لڑکپن اوراپنا شہر ایک ’’ناسٹلجینا‘‘ ہے کوئی کب تک اس سے جان چھڑاسکتا ہے۔ میں خود بھی اس مرحلے سے گذر چکا ہوں۔ بیسوں بار امریکہ گیا کئی اچھی اچھی جگہوں پر معقول تنخواہ پر ملازمت بھی ملی مگر پاکستان اورگوجرانوالہ دل سے نہیں نکلتا تھا سو بیسوں بار ہی واپس آگیا۔ جہاں اپنا شہر یا وطن نہیں بھلایا جاسکتا وہیں اپنے دوست بھی نہیں بھولتے۔ گذشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ جاناہوا تو سیدھا ملک سعید حسن لاوئج پہنچا۔ ایک کشش تھی جوکھینچ کروہاں لے گئی مگرنہ وہاں میاں محمود قصوری تھے اورنہ ملک سعید حسن۔ نہ ملک قاسم تھے اورنہ ملک حامد سرفراز۔ نہ ظفرگوندل تھے اورنہ سعید انصاری۔صحن میں نہ رشید قریشی تھے اورنہ انکے ساتھی۔ میاں اسرار الحق ایڈووکیٹ سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار صاحب کے نام کاہسپتال سامنے تھا مگر وہ نہیں تھے۔ ملک الموت چند ہفتے قبل افضال ملہی کوبھی ساتھ لے کر آسمان کی طرف چلاگیا۔ اسی صحن میں MRD کی جد وجہد کے زمانے میں سابق صدر لاہورہائی کورٹ بار سید افضل حیدر اور لیاقت وڑائچ بھی تھے۔ یہیں سعید آسی اورانجم رشید بلاتکا ن وبلاخوف اس جدوجہد کو آگے بڑھانے میں ہماری مدکرتے۔ جولوگ یہاں نہ آتے وہ اپنے اخبارات کے دفاترمیں MRD کی جدوجہد میں ہمارے ساتھ ہوتے جیسے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے نثار عثمانی اورممتازشاہ یا آزادمنش عزیز مظہر اورعلامہ صدیق اظہر بہت سے نایاب لوگ تھے،کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ ایک ایک چہرہ، چاند بن کر آنکھوں میں سمایا ہواہے۔ یہ لوگ قوم کے محسن تھے جنہوں نے ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے خلاف ہمارا حوصلہ بڑھایا اور ہم بھی ان کے معیار پر پورا اترے۔ پھر وقت نے کروٹ لی۔ حالات بدلتے گئے۔ ذہن بدل گئے، حالات بدل گئے۔ دوست بدل گئے، دشمن بدل گئے۔ وکیل بدل گئے ،قلمکاربدل گئے۔ قانون بدل گئے، ضابطے بدل گئے۔ ہائی کورٹ کے سنگ وخشت کے علاوہ بہت کچھ بدل گیا۔ جنرل کیانی اور افتخار چوہدری کے گٹھ جوڑنے ایک ’’وکلاء تحریک‘‘ کوجنم دیا تواس کے بعدسب کچھ ہی بدل گیا۔ یہ تو ہمیں معلوم تھاکہ ماضی میں جسٹس منیر سے لے کر مولوی مشتاق اور جسٹس انوار الحق تک سب اپنے اپنے وقت کے ڈکٹیٹروں کے حکم کے غلام تھے لیکن پہلی بارمعلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کاچیف جسٹس چیف آف آرمی سٹاف کے کندھے سے کندھا ملاکر وکلاء کمیونٹی کو بے وقوف بنا نے میں لگا ہوا ہے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ آپ کی نذر۔ جب یہ تحریک اپنے عروج پر تھی تو ہمارے ایک دوست لاہورہائی کورٹ بارکے صدر تھے۔ایک روز جب مال روڈ پر تحریک اپنے عروج کا زمانہ دیکھ رہی تھی تو صدر صاحب نے چھلانگ لگائی اوروکلاء کوروتادھوتا چھوڑ کر تحریک پر دوحرف بھیجے اورہائی کورٹ بار کی صدارت کی کرسی سے جج بن کر ’’انصاف‘‘ کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ہماری سیاسی تحریکوں میں ہوتارہا ہے۔’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریک میں بھی اسکے جنرل سیکرٹری رفیق احمد باجوہ یہ ’’کارنامہ‘‘ سرانجام دے چکے تھے۔ اس طرح کے کئی واقعات دیکھتے دیکھتے عمر گذر گئی۔ سب کچھ ایسا نہیں تھا۔ کبھی جسٹس اے۔ کارنیلیئس اورکے۔ ایم صمدانی بھی تھے۔ کارنیلئیس صاحب نے ساری عمر لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں کرایہ کے کمرہ میں گذار دی مگر ابھی تک تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں اوروکلاء صاحبان نے بھی صمدانی صاحب کولاہور ہائی کورٹ کا صدر منتخب کرکے قرض اتار دیا۔ آئندہ بھی ہم ایسے عظیم لوگوں کا قرض اتارتے رہیں گے اورآئین شکنوں کو انجام کاراستہ دیکھاتے رہیں گے۔