• news

تمام سیاسی جماعتوں کو اکاموڈیٹ کرنے کیلئے مجموعی پیکیج لانے کی کوشش

اسلام آباد (عترت جعفری) وفاق  اور بلوچستان میں مخلوط حکومتوں کی تشکیل کیلئے اعلیٰ سیاسی قیادت کے درمیان رابطوں میں تیزی آگئی۔  اور ایک  ایسا مجموعی سیاسی پیکج  لانے کی کوشش ہو رہی ہے، جس میں مخلوط حکومتوں میں شامل ہونے والی سیاسی جماعتوں کو بیک وقت ' کچھ دو  اور کچھ لو 'کی بنیاد پر راضی  کیا جائے۔ اسی پیکیج  کے تحت پی پی پی کو سندھ اور مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اتحادی جماعتوں کو اکاموڈیٹ کرنا پڑے گا۔ سندھ پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے معاملے میں اب صورتحال کافی واضح ہو  گئی ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی صوبائی حکومت تشکیل دے گی، اس نے متحدہ کے ساتھ تعاون کے دروازے کو کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کے پی کے میں آزاد امیدوار حکومت بنا سکتے ہیں، اس طرح  مسلم لیگ ن  کو' تخت  لاہور' کیلئے  کسی خاص مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ پی پی پی نے اس کو صوبے میں حمایت دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں جس کے  تمام  نتائج   آچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی 11 نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہے اور اسے اپنی حکومت تشکیل دینے کے لیے پاکستان مسلم لیگ نون جمعیت اور علماء اسلام اور دیگر جماعتوں کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ بلوچستان اسمبلی میں اپنی حکومت بنانے کے لیے کم از کم 26ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی، جو مسلم لیگ نون اور جے یو آئی  دیگر جماعتوں کے تعاون سے پوری ہو سکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد اس وقت سب سے زیادہ ہے جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا نمبر آتا ہے، اس  گنجلک صورتحال کے پیش نظر وفاق پنجاب اور بلوچستان اور سندھ میں مخلوط حکومتوں کی تشکیل ناگزیر ہے۔ سیاسی قیادت کے قریب رہنے والے حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے اندر حکومتوں کی تشکیل ایک  مجموعی پیکج کے تحت ہی ہو سکے گی، اس کے لیے پاکستان مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی جمعیت علماء اسلام ایم کیو ایم، پاکستان مسلم لیگ ق کو ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف تعاون کرنا ہوگا بلکہ ایک دوسرے کو ایڈجسٹ بھی کرنا ہوگا۔ سیاست قیادت  کا حکومتوں کے تشکیل کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، جے یو آئی اور مسلم لیگ ن کا رابطہ ہو چکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے دعوت ملنے کے بعد ایم کیو ایم کا ایک وفد لاہور پہنچ چکا ہے، جو پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کے ساتھ ملاقات کرے گا، پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت نے بھی گزشتہ روز ایک اجلاس منعقد کر کے انتخابی  نتائج کے اوپر مشاورت کی، دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں اپنی حکمت عملی کو طے کیا، پاکستان مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں ہیں انتخابی نتائج کی تکمیل کا انتظار کر رہی ہیں، تاکہ کامیاب ہونے والے امیدواروں کی کامیابی  کے  نوٹیفکیشن الیکشن کمشن آف پاکستان جاری کر دے، جس کے بعد ہی ایک حتمی باضابطہ  پوزیشن سامنے آئے گی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج میں جو امیدوار آزاد کیٹیگری کے تحت کامیاب ہوئے ہیں ان میں سب کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں ہے، پاکستان تحریک انصاف اس وقت آزاد کی کیٹیگری میں جیتنے والے تمام امیدواروں کو اپنی پارٹی کا امیدوار بتا رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جیسے کہ واہ  ٹیکسلا سے جیتنے والے عقیل خان  کا تعلق پی ٹی ائی سے نہیں ہے، وہ مسلم لیگ نون کے ساتھ  ہیں۔  پی ٹی آئی  کے حوالے سے صورتحال اس وقت واضح ہوگی جب آزاد جیتنے والے امیدوار اپنی سیاسی وابستگی کو ظاہر کریں گے۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں اس کوشش میں ہیں کہ آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم پر لایا جائے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے انٹرویو میں یہ کہا کہ بہت سے ایسے امیدوار  ہیں جو ان کی پارٹی کی مدد سے جیتے ہیں، اس لیے آئندہ 72 گھنٹوں کے اندر خصوصاً بڑی پارٹیوں کی عددی حیثیت میں مزید تبدیلی رونما ہوگی اور ان کی نشستیں ایوان کے اندر بڑھیں گی اور اسی وقت ہی اسلام آباد، پنجاب اور  بلوچستان کے اندر مخلوط حکومتوں کی ہیت کے بارے میں صورتحال واضح ہو جائے گی، پاکستان پیپلز پارٹی کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاہور میں ایک رات قیام کرنے کے بعد اسلام آباد آ چکے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی دیگر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ بھی ضروری بات چیت کر لیں، پیپلز پارٹی کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کے بارے میں سخت موقف رکھے گی۔ اس کے بدلے میں ملک کی  صدارت  اور بعض دوسرے سیاسی عہدے مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں کو دینے کی تجویز دی جائے گی۔ پیپلز پارٹی بلوچستان کے اندر بھی اپنی حکومت اور وزیر اعلیٰ لانے کے لیے مسلم لیگ نون اور جے یو آئی سے تعاون کی خواہاں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت اپنی اپنی جماعتوں سے مشاورت کے بعد  مذاکرات کو آگے بڑھائیں گی، پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مسلم لیگ نون کو حکومت سازی میں مدد دینے کے لیے اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پارٹی کے ایک ذریعے کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس بلانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ تمام  ایشوز پر  پارٹی کی حکومت عملی کو طے کیا جا سکے۔ آئندہ ہفتے کے ابتداء میں صورت حال واضح ہو جائے گی۔ تاہم اگر آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد مرکز میں کسی ایک جماعت میں چلی گئی تو ٹیبل ٹرن ہو سکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن