• news

آٹھ فروری کے انتخابات

اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ 8 فروری 2024ء کا دن پورے ملک میں مجموعی طور پر امن و سکون اور خیر و عافیت سے گزر گیا۔ پورا دن پولنگ کے دوران کوئی قابلِ ذکر ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ بلا شبہ اتنے پرامن انتخابات کرانے کا کریڈٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شبانہ روز کوششوں کو جاتا ہے۔ 
یہ قومی اسمبلی کے 266 جبکہ صوبائی اسمبلیوں  کے 593 حلقوں کے حامل، ملکی تاریخ کے بارہویں عام انتخابات تھے۔ قومی اسمبلی میں خواتین کے لئے مختص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس نشستیں ملا کر یہ تعداد 336 کے ہندسے پر پہنچ جاتی ہے۔ انتخابات سے قبل قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلیوں کی تین نشستوں پر امیدواروں کی رحلت کی وجہ سے انتخابی عمل ملتوی کیا گیا۔ 
2024ء کے انتخابات کو التوا کا شکار کرنے کی کوششوں میں بہت سے سیاسی و غیر سیاسی عوامل کارفرما رہے مگر یہ انتخابات دلچسپ اور نشیب و فراز کے مختلف کٹھن مراحل طے کرنے کے بعد حیرت انگیز طور پر اختتام پذیر ہونے میں آخر کار کامیاب ہو ہی گئے۔ بلاشبہ اِن انتخابات کو منعقد کروانے میں میڈیا اور سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ ایک بڑا کردار چیف جسٹس آف پاکستان کا بھی تھا۔ انہوں نے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اپنا اٹل فیصلہ دے کر اْس پر عمل بھی کروا دیا۔ اِس حوالے سے 8 فروری کا دن اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 
چلیں چناؤ کا دن امن و شانتی سے گزر گیا، بہت اچھا ہوا۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد انتخابات کے نتائج میں غیر ضروری تاخیر سے چہ میگوئیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ موبائل فون سروس تقریباً اذانِ فجر تک معطل رہی۔ وزارتِ داخلہ کا یہ استدلال کہ یہ سب کچھ امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا، حکومتی حکمتِ عملی کا ایک حصہ تھا جو پذیرائی حاصل نہ کر سکا۔ اِس عمل کو سوشل میڈیا پر بالعموم اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے بالخصوص شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔  الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ووٹنگ کا عمل ختم ہونے کے تقریباً نو گھنٹے بعد پہلے غیرسرکاری و غیرحتمی نتیجے کا سامنے آنا ہی دراصل عوام الناس کی نظر میں شکوک و شبہات، بے چینی اور گوناگوں تحفظات کا باعث بنا۔ 
حکومتِ وقت شاید اپنی مجبوریوں کی  سو وضاحتیں پیش کرے مگر 2018ء کے انتخابات میں آر ٹی ایس فیل ہونے یا کرنے کو لوگ نہیں بھول پائے۔ انٹرنیٹ اور دیگر جدید سہولتوں کی دستیابی کی وجہ سے جہاں فاصلے سمٹ رہے ہوں اور مختلف سرگرمیاں پہلے کے مقابلے میں تیز رفتاری سے وقوع پذیر ہو رہی ہوں تو کون حکومتی توجیحات پر کان دھرے گا؟؟ بڑے شہروں میں ایک انتخابی حلقہ چند مربع کلومیٹر پر مشتمل ہوتا ہے۔ نتائج مرتب کرنے اور ریٹرننگ آفیسرکے دفتر پہنچانے میں کتنا وقت درکار ہونا چاہیے؟ یہ اب کوئی تکنیکی راز نہیں رہا۔ 
2018ء کے عام انتخابات میں آر ٹی ایس کا بیٹھنا یا بٹھایا جانا دنیا کی نظر میں ایک دلچسپ مذاق کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اِس شوقِ اشرافیہ کے خوفناک اثرات اور نتائج پاکستانی عوام نے بھگتے ہیں اور اب بھی بھگت رہے ہیں۔
 موجودہ انتخابات میں الیکشن مینجمنٹ سسٹم ( ای ایم ایس) متعارف کرایا گیا۔ امید بندھی تھی کہ سابقہ مشق دوبارہ نہیں دہرائی جائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ سحر بلوچ، نمائندہ بی بی سی کے مطابق، "الیکشن کمیشن کے افسران کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ الیکشن مینجمنٹ سسٹم بوجوہ باقاعدہ طور پر فعال نہیں ہو سکا جس کے بعد اب نتائج جمع کرنے کا کام manually کیا جا رہا ہے"۔
 کیا الیکشن کمیشن کو اِس سسٹم کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ نہیں لینا چاہئے تھا؟؟ دودھ کا جلا تو چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیا کرتا ہے۔
تا دمِ تحریر غیر سرکاری و غیر حتمی ابتدائی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی، خیبرپختونخوا میں، مسلم لیگ ن، پنجاب میں جبکہ پی پی پی سندھ میں اکثریتی نشستیں جیت چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت جیل میں ہے۔ اس کو مختلف مقدمات میں قید و جرمانے کی سزائیں کوئی سربستہ راز نہیں۔ ابھی بھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ پارٹی کو اپنے انتخابی نشان سے بھی محروم ہونا پڑا۔ پارٹی کے امیدواروں نے مختلف انتخابی نشانات کے تحت انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ وہ باقی سیاسی جماعتوں کے برعکس لیول  پلینگ فیلڈ سے محروم رہے۔ 
سوشل میڈیا پر یہ فقرہ، "پی ٹی آئی کا امیدوار ووٹروں کے پیچھے اور پولیس امیدوار کے پیچھے رہی"، بہت وائرل ہوا۔ اِس کے باوجود نوجوان ووٹروں کی طرف سے پارٹی قیادت کے لئے عقیدت، جوش اور جذبے کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ناسازگار حالات میں بھی وہ مایوس ہو کر گھر نہیں بیٹھے۔ اندرون و بیرون ملک راؤنڈ دی کلاک ووٹروں کے خون کو گرماتی سوشل میڈیا ٹیموں نے ان کو مایوس نہیں ہونے دیا اور یہ یوتھ پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچی اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے مخالفین کو ورطہء حیرت میں مبتلا کر دیا۔
گو کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے فاش غلطیاں کیں۔ طاقت اور سیاست کے کسی سٹیک ہولڈر سے اسکی نہ بن سکی۔ آرمی چیف کی تقرری کے دوران پی ٹی آئی قائد کا رویہ ایک میچور سیاست دان کے شایانِ شان نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن کو جس انداز میں لتاڑا اور للکارا، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اپنے دور حکومت میں موجودہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیج کر ان کا جو حال کیا وہ بھی دنیا کو معلوم ہے۔ کسی مقام پر بھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کی کہ کل کلاں ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑیں گی تو کیا ہوگا؟ اپنی کمیونٹی یعنی سیاست دانوں کا جو حشر کیا وہ، اسے کیسے بھول سکتے تھے۔ اب وہ برملا اسے مکافاتِ عمل کا نام دیتے ہیں اور یہ بات اتنی غلط بھی نہیں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ تمام سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ ملک اور قوم کی خاطر آپس میں مل بیٹھیں اور بہتری کی کوئی صورت نکالیں۔ 
آنے والے دنوں میں ہما اسی کے کندھے پر بیٹھے گا یا بٹھایا جائے گا جس کے پاس وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 169 سیٹیں دستیاب ہوں گی۔ اب یہ اْس جماعتی سربراہ کا زیادہ فرض بنتا ہے کہ وہ دل بڑا کرے اور نفرتوں کی خلیج کو کم کرنے کے اقدامات میں پہل کرے۔ اگر بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں دہائیوں پر محیط مخاصمت میثاق جمہوریت میں بدل سکتی ہے، مسلم لیگ ق اور ن باہم شیر و شکر ہو سکتی ہیں، عمران خان شیخ رشید اور چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ comfortable ہو سکتے ہیں تو وہ پی پی پی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سے کیوں نہیں؟
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن