• news

انتخابات کے بعد حکومت سازی کا گورکھ دھندہ

انتہائی تذبذب کی حالت میں پاکستان کے مستقبل کا سیاسی اورحکومتی نقشہ ابھرتا محسو س ہونے لگا ہے۔8 فروری کے انتخابات کے بعد ابتدائی طورپر تومسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف بھی اپنی مجوزہ تقریر کو ملتوی کر کے گھر چلے گئے تھے کیونکہ ابتدائی کچھ پولنگ بوتھوں سے آنیوالے نتائج حوصلہ افزا نہیں تھے مگر جب الیکشن کمشن آ ف پاکستان نے تاخیر کے ساتھ انتخابات کا اعلان شروع کیا تو انہوں نے کارکنوں سے خطاب میں خلاف توقع بہت سی اہم باتیں کی ہیں۔ 8 فروری کی شام کو تو گھر جانے سے پہلے ان کہنا تھا کو اگر انہیں دو تہائی اکثریت نہیں ملتی تو چلو سادا اکثریت ہی دلا دی جائے تاکہ وہ کسی دوسری جماعت کی محتاجی کے بغیر پاکستان کی خدمت کر سکیں لیکن ایک دن بعد 9 فروری کی شام کو انہوں نے اپنے ورکروں سے خطاب میں قومی حکومت سے ملتی جلتی باتیں کی ہیں۔ اس خطاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ سب جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور انہوں نے سب کو دعوت دی کہ ، پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھو۔لاہور میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مشکل سے نکالنے کیلئے تمام ادارے مثبت کردار ادا کریں، سیاستدان، پارلیمنٹ،  افواج پاکستان، میڈیا سب مل کر مثبت کردار ادا کریں۔نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ جسے بھی مینڈیٹ ملا ہے و ہ اس کا احترام کرتے ہیں چاہے وہ پارٹی ہو یا آزاد امیدوار، میاں صاحب نے دعوی کیا کہ انہوںنے ماضی میں بھی پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالا ہے۔سابق وزیراعظم نے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی آنکھوں میں خوشی کی لہر اور چمک دیکھ رہا ہوں، اس ملک میں ایک روشن تبدیلی آنی چاہیے اور یہ کہ مسلم لیگ ن ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے ، اور اب ملک کو بھنور سے نکالنے کی تدبیر کرنا ہمارا فرض ہے۔نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے شہباز شریف کو مینڈیٹ دیا ہے کہ آج ہی سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں،یہ آصف زرداری، فضل الرحمان، خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کرینگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں استحکام کے لیے کم از کم 10 سال چاہیں روشنیاں پھر لوٹ آئیں گی، بے امنی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ اب یہ محض حسن اتفاق ہے یا ایک پرورام کا تسلسل ہے کہ ادھر میاں صاحب نے تقریر کی اور ادھر آصف علی زرداری اسلام آباد سے اور بلاول بھٹو جیکب آباد سے لاہور پہنچ گئے۔ یقینا فضل الرحمان اور خالد مقبول صدیقی بھی لاہور آ نے والے ہوگے۔ ابھی پورا انتخابی ریزلٹ سامنے نہیں آیا لیکن اقتدارکے کھیل کے تمام کھلاڑی حرکت میں آ گئے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں اصل اہمیت پنجاب کو رہی ہے اور پنجاب کی قومی اسمبلی کی سیٹوں کے حوالے سے تو بہت بات ہو رہی ہے لیکن پنجاب اسمبلی کا زیادہ تذکرہ نہیں ہورہا جہاں سیاسی اور غیر سیاسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں مسلم لیگ کی حکومت کے بننے کے آثار واضح ہیں اور وہ بھی بلا شرکت غیرے۔ جہاں تک وفاقی یا قومی حکومت کی بات ہے تو مقتدر قوتوں کی سائڈ پر کھڑے ایک ایک بڑے ٹی وی چینل کے سینئر مبصرین نے اس صورت حال پر اپنے انداز میں تبصرہ بھی کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ٹی وی سکرینوں پر جو ریزلٹ آ رہے ہیں ان میں بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی ہے اور سب جانتے ہیں کہ ان جیتنے والوں کے پس منظر میں تحریک انصا ف کا نام صاف پڑھا جا رہا ہے جسے آسانی سے نظر انداز کرنا مشکل ہے اب اگر مقتدر حلقے اور میاں صاحب زرداری صاحب یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ملک وقوم کی خاطر سب کومل بیٹھ کر آگے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئیے تو اس بڑی جماعت کی دستیاب قیادت یعنی بیرسٹر گوہر کو بھی آن بورڈ لینا چاہئیے تاکہ ملک میں محاز آرائی کی کیفیت ختم ہو اور ملک وقوم کیلئے بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ اسکے جیتے ہوئے امیدواروں کو ریٹرننگ افسروں کے ذریعے ہرایا جا رہا ہے۔ لاہور کی ایک سیٹ پر عدالت عالیہ نے سلمان اکرم راجہ کے مقابل عون چوہدری کی ان کے بقول ڈرامائی جیت کا نتیجہ روکنے کا حکم بھی دیا ہے اور بعض دوسرے حلقوں سے رات گئے ہارنے والے امیدواروں کی طرف سے ایسے ہی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس پس منظر میں مسلم لیگ کے کچھ سیاستدانوں کی طرف سے اپنی ہار کو تسلیم کرنے اور مخالف امیدوار کو مبارک باد دینے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں لاہور کے منجھے ہوئے اور سینئر سیاستدان خواجہ سعد رفیق ان میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ انہوں نے جمہوری عمل اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرکے اوراپنے مد مقابل سینئر وکیل لطیف کھوسہ کو مبارک باد دیکر اپنے اوراپنی جماعت کے سیاسی قد میں اضافہ کیا ہے۔ پشاور میں ثمر بلوچ اور اسلام آباد سے سینئر سیاستدان مصفی نواز کھوکھر کے بارے میں میڈیا نے ایسے ہی جذبات رپورٹ کئے ہیں۔ یہ اچھی روایات ہیں جن کوعام کیا جانا چاہیے کیونکہ ان سے جمہوری اقدار مضبوط ہوتی ہیں۔یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور سوشل میڈیا پر ان تمام شخصیات کے خلاف بھی قانون کو حرکت میں آنا چاہئیے جو ملک کے مختلف حصو ں میں بیلٹ بیکسوں کو توڑتے جعلی مہریں لگاتے یا آر او کے دفاتر میں کام دکھاتے نظر آ رہے ہیں ان میں عام شہری ہوں یا سرکاری ملازم کسی کے ساتھ رو رعائت نہیں برتی جانی چائیے۔جو معاملات الیکشن کمشن یا عدالتوں میں لائے جا رہے ہیں ان کا بھی جلد فیصلہ ہونا ضروری ہے تاکہ ملک میں حالات معمول پر لائے جا سکیں۔

ای پیپر-دی نیشن