اتوار‘ 1445ھ ‘ 11 فروری 2024ء
کئی علاقوں میں خواتین نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
اس جدید دور میں بھی ہمارے ہاں پسماندہ علاقوں میں رسم و رواج کی بنیاد پر عورتوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جانے کی وجہ سے ووٹ کاسٹ کرنے نہیں دیا جاتا اور بعدازاں بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ یہاں قیام پاکستان سے آج تک عورتوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ اب کوئی بتلائے کہ کیا یہ فخر کا مقام ہے۔ ہمارے خیال میں تو یہ شرم کا مقام ہے۔ مردانہ تسلط کو رسوم و رواج اور مذہب کی آڑ میں اس طرح استعمال کرنے کا ڈھونگ ہے عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کی سازش ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عورتوں کی تعلیم، ان کی ملازمت ان کی زندگی کے تمام فیصلے خود کر کے انہیں اپنا محتاج رکھتے ہیں تاکہ ان پر اپنا تسلط برقراررہے۔ مذہب میں، آئین میں، قانون میں جب ایسی کوئی پابندی نہیں تو یہ خود ساختہ حاکمان ایسا کر کے ریاست کے اندر ریاست بنانے کے مکروہ عمل سے باز کیوں نہیں آتے۔ اسلام مرد و عورت کی تعلیم کے حق میں ہے، یہ روکتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ تعلیم آئی تو عورتوں کو حق ملازمت بھی دینا ہو گا، حق وراثت کا بھی ان کو پتہ چل جائے گا،وہ جدید علوم حاصل کر کے مردانہ معاشرے میں اپنا مقام بھی بنائیں گی اور یہ سب ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ عام لوگوں کا کیا رونا ہماری سیاسی جماعتوں کو ہی دیکھ لیں جو عورتوں کے حقوق کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں۔ انہوں نے قانون کے مطابق اتنے فیصد ٹکٹ عورتوں کو نہیں دئیے جو ضروری قرار پائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں عورتوں کے حقوق کی باتیں صرف زبانی کلامی ہوتی ہیں۔ اور تو اور لبرل موم بتیاں جلانے والی ماڈرن خواتین بھی اس بارے میں چپ رہتی ہیں اور فضول باتوں پر شور مچاتی موم بتیاں جلاتی احتجاج کرتی ہیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے میں پرانی سیاسی جماعتوں کی حالت پتلی بڑے بڑے رہنما ہار گئے۔
سچ کہیں تو خیبر پی کے میں حقیقت میں
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
والا معاملہ سامنے آیا ہے۔ بڑے بڑے قوم پرست رہنما اورمذہبی و سیاسی جماعتیں آزاد امیدواروں کے سیلاب کے سامنے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ یہاں آزاد امیدواروں یعنی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ افراد نے نہ اے این پی کو چھوڑا نہ جے یو آئی کو نہ مسلم لیگ نون کو نہ پیپلز پارٹی کو ہر جگہ آزاد امیدواروں نے ہل چلا کر پی ٹی آئی والوں کے لیے فصل بونے کی راہ ہموار کر دی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن خیبر پی کی سیاسی جماعتوں کیلئے ’’واٹر لو‘‘ ثابت ہوا ہے۔ سیاسی مبصرین کو بھی اندازہ نہ تھا کہ ایسا ہاتھ ہو جائے گا۔ یوں اب سیاسی میدان میں تقسیم مزید شدید ہو گئی ہے۔ آزاد یعنی پی ٹی آئی کے امیدواروں نے نامی گرامی سیاستدانوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب لوگ پرانی سیاسی جماعتوں کے چنگل سے نکل رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان مذہبی جماعت جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اب کیا ان جماعتوں کے کارکن بددل ہو گئے تھے کہ ووٹ ڈالنے نہ نکلے یا آزاد امیدوار عوام کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایسا کیوں ہوا یہ خیبر پی کے کی سیاسی جماعتیں جانیں اور ان کے سربراہ فی الحال تو وہاں کے سیاسی میدان میں
لٹی جو فصل بہاراں توایسا تھا منظر
لپٹ کے رو دئیے تنکے بھی آشیانے سے
والا منظر ہے۔
٭٭٭٭٭
معذور اور بزرگ افراد کے علاوہ کئی دولہے بھی ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے آئے۔
اس بار الیکشن میں وہ روایتی جوش و خروش تو دیکھنے میں نہیں آیا جو ہماری سیاست کا خاصہ ہے۔ شاید اس کی وجہ دگرگوں سیاسی حالات بھی تھے چنانچہ لوگ دور رہے۔مگر پھر آہستہ آہستہ سیاسی ماحول کو جذب کرنے لگے۔ وہ روایتی ڈھول ڈھمکا، جلسے، آتشبازی، ہلہ گلہ بہت کم نظر آیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ امیدواروں کے پاس پیسے کی کمی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ لوگ اس سیاسی شغل پہ آمادہ نظر نہیں آ رہے تھے۔ غم روزگار نے ان سے سیاسی دلکشی چھین لی تھی۔ البتہ یہ بڑے خوشی کی بات ہے کہ الیکشن والے دن لوگوں نے بڑی تعداد میں ازخود باہر نکل کر پولنگ سٹیشنوں کا رخ کیا اور لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر انتظار کا کشٹ اٹھا کر بھی ووٹ کاسٹ کیا اور بے شمار کیا۔ ملک بھر کے اکثر پولنگ سٹیشنوں پر معمر افراد کی بڑی تعداد خود چل کر یا اپنے بچوں کے سہارے ووٹ ڈالنے آئی۔ کیا مرد کیا خواتین ان کے علاوہ جسمانی طور پر معذور افراد نے بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے اپنے باشعور شہری ہونے کا ثبوت دیا۔ کئی شہروں میں چونکہ شادیوں کا سیزن بھی چل رہا ہے۔ کئی دولہا حضرات شادی کے لباس میں ہی ووٹ ڈالنے آئے اور کئی جذباتی دولہے تو اپنی دلہنوں کے ساتھ ووٹ کاسٹ کرنے پہنچے جنہوں نے اپنی رنگین مہندی لگے ہاتھوں سے اپنے ووٹ کاسٹ کئے ایک مقام پر تو دولہا اور باراتی پولنگ سٹیشن آئے کہ پہلے ووٹ ڈالیں گے اس کے بعد دلہنیں لینے جائیں گے۔ یوں ان پولنگ سٹیشنوں پر رنگ برنگے زرق برق لباس میں ملبوس ان ووٹروں کو دیکھ کر سب خوش ہوئے اور یہ ویڈیوز دکھا کر ٹی وی چینلز نے بھی عوام کے جوش و خروش اور خوشی کے اظہار میں اپنا حصہ ڈالا۔
٭٭٭٭٭
انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے امیدوار اور عوام دونوں پریشان۔
حکومت کی طرف سے بارہا اعلانات ہوتے رہے۔ انتظامیہ بھی یقین دلاتی رہی کہ الیکشن ڈے پر انٹرنیٹ کی سہولت بند یا معطل نہیں ہو گی مگر پھر نجانے کیا ہوا ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے‘‘ والی حالت پورے ملک میں دکھائی دینے لگی اور اکثر مقامات سے انٹرنیٹ کے غائب ہونے کی اطلاعات تواتر سے یوں آنے لگیں کہ عالمی اداروں کو بھی میدان میں آنا پڑا اور اسے اظہار رائے کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا نام دیا گیا۔ اب وزیر اطلاعات نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے کہ بھئی انٹرنیٹ بند ہوا تو کیامسئلہ ہے، کئی مقامات پر سکیورٹی کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ وائی فائی کی سہولت تو ہر جگہ دستیاب رہی۔ وہ تو بند نہیں کی گئی۔ ویسے بھی دنیا بھر میں حکومتیں جہاں اور جب چاہتی ہیں انٹرنیٹ کی سہولت معطل کر دیتی ہیں۔ ایسا کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ ان کی لاجک یہ ہے کہ لوگوں کا تحفظ ضروری تھا۔ مگر مخالفین کو یہ بات کون سمجھائے۔ وہ تو یہ بندش بھی الیکشن نتائج میں گڑبڑ کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔ ویسے بھی نتائج میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب تو کئی یقین سے کہہ رہے ہیں کہ نتائج میں گڑ بڑ کی گئی ہے۔ یوں انٹرنیٹ کی بندش۔ الیکشن کمشن کے گلے پڑ رہی ہے۔ جسے پہلے ہی الیکشن کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ اب تو سب جماعتیں جو ہار گئی ہیں پنجے جھاڑ کر الیکشن کمشن کے درپے ہو گئی ہیں۔