انتخابات 2024ء کے نتائج
پاکستان کے اندر بہت سے خدشات کی دھند میں لپٹے انتخابات 2024ء انجام پذیر ہوئے جس سے الیکشن ہونے نہ ہونے کے خدشات کا تو یقینی خاتمہ ھو گیا لیکن الیکشن ہونے کے بعد نتائج پر ابھی تک دھند برقرار ہے جن پر یورپی یونین اور امریکہ بھی تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
یقین ، قیاس اور دستیاب حقائق کے مدنظر ابھی تک موصولہ نتائج کے تناظر میں پی ٹی آئی ، پاکستان کی سب سے بڑی نظریاتی سیاسی جماعت بن کر سامنے آ چکی ہے جس کا ثبوت 2018ء اور 2024 ء کے انتخابی نتائج ہیں۔ اسے اب نظریاتی اس لیے بھی کہا جا سکتا ھے کہ ، اس کے مدمقابل مسلم لیگ ن سابقہ پی ڈی ایم کی حکومت میں نظریات پر مفاہمت کر چکی ہے اور پیپلز پارٹی کے سیاسی نظریات محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد ہی تبدیل ہو گئے تھے۔
2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی قیادت جیلوں میں تھی تو ان کو ہمدردی کے پارٹی ووٹوں نے قومی اسمبلی کے اندر 82 سیٹیں دلوا دی تھیں۔ اس سے پچھلا الیکشن 2013ء کا انہوں نے آزادی سے لڑا تو 166 سیٹیں لے گئے تھے ، اب موجودہ الیکشن میں جبکہ میاں نواز شریف سمیت مسلم لیگ ن کی تمام قیادت تین ماہ سے کمپین میں تھی اور انہیں غیبی امداد بھی میسر رہی اس کے باوجود یہ 2018ء جتنی سیٹیں بھی لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور جو سیٹیں یہ حاصل کر چکے ہیں ان میں بھی ایک درجن سے زائد پر نتائج میں ردوبدل کے اعتراضات یورپی یونین اور امریکی ترجمان بھی اٹھا چکے ہیں اور پاکستان کے اکثریتی ووٹرز کا حق رائے دہی استعمال کرنے کا خیر مقدم کر چکے ہیں۔ اسی طرح سب پر یہ واضح ہو چکا ھے کہ موجودہ الیکشنز میں اکثریتی ووٹرز پی ٹی آئی کے ہیں جنہیں آزاد ممبران کہہ کر کسی صورت بھی کھلی آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ عمران خان نے 2018ء ء میں قومی اسمبلی کے اندر 149 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ اس سے قبل 1997ء میں مسلم لیگ ن 137، 2002ء میں ق لیگ 118 ، 2008 ء میں پیپلز پارٹی 122، اور 2013 ء میں مسلم لیگ ن نے 166 سیٹیں اپنے انتخابی نشانات پرجیتی تھیں ۔ اب جب کہ عمران خان پابند سلاسل ھیں اور انکی جماعت کو انتخابی نشان بھی الاٹ نہ ہوسکا اس کے باوجود ان کے حمایت یافتہ ایک سو کے قریب آزاد امیدواران قومی اسمبلی کامیاب ہو چکے ہیں جس سے پاکستان کے آئندہ کے سیاسی منظر میں صاف دکھائی دے رہا ھے کہ مسلم لیگ ن کی شاید یہ آخری صوبائی اور قومی حکومت ہو اگر بن گئی تو ،، کیونکہ سرکاری نتائج جو بھی ہوں پنجاب کے اندر بھی عوامی نتائج ، مسلم لیگ ن کے مکمل حق میں نہیں آئے۔ اس ہے برعکس پی ٹی آئی کے نظریاتی ووٹرز میں جنون کی حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مسلم لیگ ن اپنا ووٹ بنک بڑھانے کی بجائے سابقہ ووٹرز کا مکمل اعتماد بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ، پنجاب میں اب یہ واحد سیاسی جماعت نہیں رہ گئی۔ پی ٹی آئی اس سے بڑی جماعت بن کر سامنے آ چکی ہے جو کے پی کے ، کی بھی واحد بڑی سیاسی جماعت ہے۔
قومی اسمبلی 342 اراکین پر مشتمل ہوتی ہے جس میں 272 بذریعہ الیکشن آتے ہیں 60 خواتین کی مخصوص سیٹیں ہیں اور دس اقلیتی نشستیں ہیں جو ممبران اسمبلی کے ووٹوں سے تشکیل پاتی ہیں۔ مخصوص سیٹیں کسی بھی سیاسی جماعت کے جیتنے والے ممبران کی تعداد کے حساب سے ان کو ملتی ہیں اور اقلیتی سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوتی ہے۔ اب اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ممبران قومی اسمبلی کو سیاسی جماعت تسلیم نہ کرتے ہوئے خواتین کی مخصوص سیٹوں کے حق سے محروم کر کے یہ نشستیں خود بھی بانٹ لیں تو بھی ان دونوں سیاسی جماعتوں کے ممبران کی الگ الگ تعداد پی ٹی آئی کے آزاد ممبران کے برابر نہیں ہو سکتی اور جب تک اقلیتی 10 ممبران کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اکٹھے ہو کر ووٹ نہیں ڈالتے یہ آزاد ممبران سے ایک بھی اقلیتی نشست نہیں جیت سکتے لہذا یہ پانچ پانچ اقلیتی سیٹیں آپس میں بانٹنے کے لیے ضرور اکٹھے ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود ان تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس تنہا حکومت بنانے کی کوئی اکثریت نہیں ہے جس سے عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں اور یہ تصور بھی سامنے آ رہا ہے کہ پاکستان کوئی سیاسی لیبارٹری ہے جسے سیاستدانوں کی بجائے کوئی سائنس دان چلا رہے ہیں جو ہر الیکشن میں کوئی پرانا گھسا پٹا تجربہ کرتے ہیں جس سے کامیابی کی بجائے پہلے سے زیادہ ناکامی سامنے آ جاتی ہے۔ موجودہ انتخابی نتائج سے لگتا ہے کہ غیبی فرشتے پاکستان میں آکر ووٹ بھی ڈال جاتے ہیں جو جاتے جاتے غیبی مدد کے لیے کچھ ووٹ نکال بھی لے جاتے ہیں۔