• news

فقیر اللہ خان کا لندن

حیات کے سفر میں جغرافیائی سرحدیں پارکرکے نئی نئی جگہوں کی دریافت، ان کا کھوج زمینی سفر میں ہمیں بہت کچھ دکھاتا اور سکھاتا ہے، نئے لوگ، نئی زمین، نئے رسم ورواج اور نئے نئے مزاج انسانی سوچ کی حیرت کو تقویت بھی فراہم کرتے ہیں اور تخیل کی وسعت کا باعث بھی بنتے ہیں۔حیرت کے اس سفر میں بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے تو خدائے واحد کی لاکھوں تخلیقات سے آشنائی بھی ہوتی ہے، مجھے لگتا ہے یہ خدا اور فطرت سے ملنے کا بھی ایک وسیلہ ہے۔
سفر نامے بہت لکھے گئے، بہت پڑھے بھی گئے اورپسند بھی کئے گئے لیکن پسند وہی کئے گئے جہاں حیرت کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے جس میں قاری خود بھی گم ہوجاتا ہے، اپنی ذات کو وہاں موجود پاتا ہے جہاں لکھاری خود بھی موجود رہا ہوتا ہے۔ سونے پر سہاگہ ہوتا ہے کہ اگر سفر کی دلچسپیوں کے ساتھ وہاں کے بارے میں معلومات بھی ملتی جائیں لہذا سفر نامہ لکھنا بھی ایک فن ہے۔
 ایک مکمل اور بھرپور سفرنامہ لکھنا ہر ایک کے بس کی با ت نہیں ہے۔ کچھ دن قبل مجھے ایک سفرنامہ ‘‘یہ ہے لندن‘‘پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ سفر نامہ نگار فقیر اللہ خان ہیں، خوبصورت اور دلچسپ پیرائے میں لکھاگیا یہ سفرنامہ نہ صرف قاری کو اپنے ساتھ ساتھ انگلی پکڑ کر چلنے پر مجبور کردیتا ہے بلکہ وہیں قاری تحریر کی گرفت میں ایسا قابو آتا ہے کہ ایک ہی نشست میں اس کو پڑھنا بھی چاہتا ہے۔ لندن کی خوبصورتیوں کو ساحرانہ انداز میں ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر خاص وعام مقام کا تعارف کروانے کی بھرپور کوشش بھی کی گئی ہے۔ 
لندن کی سڑکوں اور گلیوں کا ذکر کرنے کے بعد میوزیم، برج، پارکس اور باغات کا تفصیلی تذکرہ ملتا ہے، ان تمام مقامات کا احسن طریقے سے احاطہ کیا گیا ہے، تعلیم کی روشنی کے مینار کے عنوان سے ایک باب موجود ہے جس میں ٹاپ ٹن تعلیمی اداروں کا تفصیلی ذکر ہے۔ 
اخبارات کے ساتھ ملکہ وکٹوریہ، ملکہ الزبتھ، کوہ نور ہیرا، شاہی تاج سے لے کر لیڈی ڈیانا، شاہ چارلس سوم تک کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔مصنف نے بھرپور کوشش کی ہے کہ لندن کے حوالے سے کوئی جگہ، کوئی شخص کوئی موضوع تشنہ نہ رہنے پائے، ہر جگہ کے سحر کو محسوس کرتے ہوئے خود فقیراللہ خان لکھتے ہیں کہ‘‘نہ جانے وہ کون سامسحور کن لمحہ تھا جب اس بینظیر شہر پر پہلی دفعہ پرواز کرتے ہوئے میں کچھ کھو سا گیا۔ کتنے حسین پیرائے میں رقم طراز ہوتے ہوئے فقیر اللہ خان کہتے ہیں کہ‘‘دنیا کے بڑے بڑے شہر سٹالن، گراڈ، بغداد اور برلن موجود ہیں لیکن ایک ایسا شہر جس پر جنگ عظیم دوم میں 57دن رات بلا ناغہ جرمن کے طیارے حملہ آور ہوتے رہے کوئی گرجا یا پیلس، کوئی سٹریٹ یا میوزیم پارلیمنٹ ہاؤس یا ٹاور ایسا نہیں تھا جو ان ہوائی حملوں سے محفوظ رہا ہو لیکن اس کے باوجود لندن کے شہر نے اپنے آپ کو سنبھالے رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ آج بھی جیتا جاگتا اورہنستا بستا شہر ہے۔
لندن جانے کی خواہش کس دل میں نہیں ہوگی لیکن یہ پرکشش الفاظ پڑھنے کے بعد نہ صرف پورا سرنامہ پڑھنے کی خواہش بڑھ جاتی ہے بلکہ لندن جانے کی خواہش بھی تحریر کے جادو میں کھو کر کسی حد تک پوری ہوجاتی ہے اور باقی بذات خود جاکر دیکھنے کی ایک کسک سی چھوڑ جاتی ہے۔ اس دنیا میں جس شہر کو سب سے پہلے عروس البلاد کا نام دیا گیا وہ لندن شہر تھا۔جس کی سلطنت  میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ لندن کا تعارف اور معلومات پر ہم پہلے بات کرچکے ہیں یہ فقیر اللہ خان کی بہت کامیاب کاوش کہی جاسکتی ہے جو انہوں نے‘‘یہ ہے لندن‘‘ کی صورت میں پیش کرکے دنیائے کتب کی رنگا رنگی میں ایک اور حسین رنگ کا اضافہ کیا ہے۔ کتاب پڑھتے وقت مجھے ہر لمحہ یہ احساس ہوتا رہا ہے کہ سفرنامہ نگارکے اندر ادبی تخلیق کی بڑی صلاحیت بھی موجود ہے، ادبی رنگ میں رنگے اس سفرنامے کے ہر لفظ سے ادب جھلکتا ہے۔
 ایک ایک جملہ خوبصورت الفاظ سے مزین ہے یعنی آپ کے ادبی ذوق کی تسکین بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہے ورنہ بہت سے سفرنامے روکھے پھیکے انداز میں الفاظ کی مڈبھیڑمیں محض انسائیکلو پیڈیا کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور بعض تو محض اپنی میں کی گردان سے باہر ہی نہیں نکل پاتے، خوبصورت تصاویر سے مزین اس خوبصورت سفرنامے کو نستعلیق مطبوعات نے نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ لوگ اس سفرنامے کو پڑھنے کے بعد اپنی پسندیدگی کا اظہار ضرور کریں گے۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن