• news

ریٹائرڈ یا مستعفی ججوں کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھنے سے متعلق اپیل قابل سماعت قرار

اسلام آباد (رپورٹ، اکمل شہزاد) سپریم کورٹ نے اعلی عدلیہ کے '' ریٹائرڈ یا مستعفی ججوں کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا شکایت پر کارروائی جاری رکھنے یا نہ رکھنے ''سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے دائرکی گئی انٹرا کورٹ اپیل کوقابل سماعت قرار دے دیا۔ اس حوالے سے معاونت کے حصول کے لئے امائیکس کیورائے (عدالت کے دوست) مقرر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے سینئر وکلا کے نام طلب کرلیے اور انہیں قانونی سوالات وضع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 19فروری تک ملتوی کردی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک جج کو شکوک و شبہات سے بالاتر ہو کر شفاف انداز میں اپنے منصف سے سبکدوش ہونا چاہیے ، کوئی جج نہیں چاہے گا کہ وہ بدنامی کے سائے تلے ریٹائرڈ ہوجائے؟۔ پہلے ایک جج پر بے بنیاد الزامات لگا کر اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میںشکایت دائر کی جاتی ہے، پھر اسے بدنام کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے، جج کے خلاف جب ایک دفعہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت آجائے تو پھر اس پر کونسل کی رپورٹ بھی آنی چاہیے، اگر جج کے خلاف الزامات درست نہیں تو معاملہ ختم ہوجائے گا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ بہت سے ایماندار ججوں کے خلاف ان کے فیصلوں پر بلیک میلرز شکایات دائر کرکے ان کی ساکھ خراب کرتے ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے، غلط کاری پر مشکل سے کسی وکیل کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ عدلیہ کے ادارہ کے لیے ضروری ہے کہ جج باعزت اور باوقار طریقے سے ریٹائر ہو، کسی جج کو بدنامی لے کر اپنے گھر نہیں جانا چاہیے، شفافیت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کوئی شکایت زیر سماعت ہے تو ریٹائرمنٹ یا استعفی کے باجود اس پر کارروائی ہونی چاہئے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے پیر کے روز وفاقی حکومت اور عافیہ شیر بانو کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے ایم ڈی طاہر کیس کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے 1989 میں ججوں کی تقرری سے متعلق اپیل زائدالمیعاد ہونے کے باوجود قابل سماعت قرار دی تھی۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اس وقت ہم معاملے کے ایک پہلو کو دیکھ رہے ہیں، اس میںمعاونت کے لئے امائیکس کیورائے مقرر کرلیتے ہیں جو ہر پہلو سے عدالت کی معاونت کریں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مخدوم علی خان اور خالد جاوید خان کو معاونت کے لیے امائیکس کیورائے مقررکیا جاسکتا ہے، جس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا خواجہ حارث بھی اس معاملہ میں عدالت کو معاونت دے سکتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی کہ وہ اسی معاملہ میں ایک فریق (سابق جج مظاہر نقوی) کے سپریم جوڈیشل کونسل میں وکیل ہیں، جس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا مخدوم علی خان بھی اسی معاملہ میں ایک فریق کے وکیل ہیں، جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ اس طرف تو میری توجہ بھی نہیں گئی ہے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے انہیں کہا کہ ہم عدالتی معاونت کے لیے حکم جاری کردیتے ہیں، آپ مزید نام تجویز کر دیں، اور کیس سے متعلق قانونی سوالات مرتب کر کے جمع کرا دیں۔

ای پیپر-دی نیشن